I am sharing urdu stories in this blog. If you are interested in reading do come and visit, this page is updated with new urdu stories on daily basis.
You will find here urdu stories, urdu short stories and Urdu Islamic stories, not just for reading purposes but to have some knowledge.
If you want to start your YouTube journey, you can take these stories for your YouTube videos. So stay tuned.. Share this post with your friends and family members.
For More Stories Visit: Islamic Stories
Before a Further Do, Must Watch This Video Based on True Islamic Story and give your feedback in the Comments.
Urdu Stories
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے ساتھیوں کے ساتھ معاملہ
حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھر میں تھے جو صحابہ کرام سے بھرا ہوا تھا۔
جریر رضی اللہ تعالی عنہ دروازے پر کھڑے ہوئے، انہیں دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیں بائیں جانب دیکھا آپ کو بیٹنے کی جگہ نظر نہ آئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر اٹھائی اور اسے لپیٹ کر حضرت جریر رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف پھینک دی اور فرمایا اس پر بیٹھ جاؤ ۔
حضرت جریر رضی اللہ تعالی عنہ نے چادر لے کر اپنے سینے سے لگالی اور اسے چوم کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واپس کر دیا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
اللہ آپ کا ایسے اکرام فرمائے جیسے آپ نے میرا اکرام فرمایا ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تمہارے پاس کسی قوم کا قابل احترام آدمی آئے تو تم اس کا اکرام کرو… (حیات اصحابہ )
کونسی مخلوق کون سے دن پیدا کی گئی
صحیح مسلم اور نسائی میں حدیث ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اورفرمایا
مٹی کو اللہ تعالی نے ہفتہ کے دن پیدا کیا ، اور پہاڑوں کو اتوار کے دن ، اور درختوں کو پیر کے دن، اور برائیوں کو منگل کے دن ، اور نور کو بدھ کے دن ، اور جانوروں کو جمعرات کے دن اور آدم علیہ السلام کو جمعہ کے دن عصر کے بعد جمعہ کی آخری ساعت میں عصر کے بعد سے رات تک کے وقت میں … ( تفسیر ابن کثیر جلد اصفحہ ۱۰۶)
والدہ کی فرمانبرداری کا واقعہ
حضرت موسی علیہ السلام نے پو چھایا اللہ میرا جنت کا ساتھی کون ہے؟
تو فرمایا کہ فلاں قصائی… قصائی کا پتا بتایا ، نہ کسی ابدال کا نہ قطب کا نہ ہی کسی شہید کا نہ محدث کا۔ اللہ نے فرمایا کہ فلاں قصائی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام حیران ہو گئے۔ پھر اس قصائی کو دیکھنے چلے گئے قصائی بازار میں بیٹھا گوشت بیچ رہا ہے۔
شام ڈھلی اس نے دُکان بند کی اور گوشت کا ٹکڑا تھیلے میں ڈالا اور گھر چل دیا۔ موسیٰ علیہ السلام بھی ساتھ ہو گئے۔ کہنے لگے بھائی تیرے ساتھ جاؤں گا ۔
اس کو نہں پتہ تھا کہ یہ موسی علیہ السلام ہیں… کہنے لگا آجاؤ، گھر گئے۔
اس نے بوٹیاں بنا کر سالن چڑھایا آٹا گوندھا روٹی پکائی سالن تیار کیا۔
پھر ایک بڑھیا تھی اسے اُٹھا کر کندھے کا سہارا دیا۔ سیدھے ہاتھ سے لقمے بنا بنا کر اسے کھلائے۔ اس کا منہ صاف کیا اس کو لٹایا۔ وہ کچھ بولی بڑ بڑائی.
موسی علیہ السلام نے پوچھا یہ کون ہے؟
اس نے کہا کہ “میری ماں” ہے۔ صبح کو اس کی ساری خدمت کر کے جاتا ہوں اور رات کو آ کر پہلے اس کی خدمت کرتا ہوں ۔ اب اپنے بچوں کو دیکھوں گا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: یہ کچھ کہ رہی تھی؟
کہا ہاں جی ! روز یہ کہتی ہے عجیب بات ہے۔ میں روز اس کی خدمت کرتا ہوں تو کہتی ہے کہ اللہ تجھے موسیٰ علیہ السلام کا ساتھی بنائے۔
میں قصائی کہاں اور موسی علیہ السلام نبی کہاں؟
(اللہ اکبر)
آخرت سے غفلت کا انجام
کراچی کے ایک بڑے رئیس نے کہا ہم روزہ نماز نہیں جانتے ہمارے پاس اتنی دولت ہے کہ سات پشت تک کھائے گی۔
بس اس کے بعد ہی اللہ کا غضب آیا جس کی وجہ سے پیٹ میں کینسر پیدا ہو گیا اور ایک تولہ جو کا پانی نلکی کے ذریعے دیا جاتا تھا گلے میں بھی کینسر کا اثر ہوا کوئی چیز کھا نہیں سکتے تھے اسی طرح سوکھ کر ختم ہو گئے
اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ کو سکھ میں یاد کرو تا کہ اللہ تعالیٰ دکھ میں تمہیں یاد رکھے۔
اللہ پاک ہم سب کو اپنے اصلی وطن آخرت کی تیاری کی فکر نصیب مائیں … اور ملک پاکستان کی حفاظت فرمائے ۔ آمین یارب العالمین
ایک گنہگار بندہ کی تو بہ
موسی علیہ السلام کے زمانے میں بنی اسرائیل قحط میں مبتلا ہو گئے لوگ موسی علیہ السلام کے پاس جمع ہوئے اور کہنے لگے کہ اے کلیم اللّٰہ ! اللّٰہ تعالیٰ سے دعا کیجیے کہ ہمیں بارش سے سیراب کرے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کو ساتھ لے کر صحرا میں نکلے تعداد میں وہ ستر ہزار سے زائد تھے۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اے اللّٰہ اپنی بارانی سے ہمیں سیراب فرما، اور ہمارے اوپر اپنی مرضی کو پھیلا دے اور ہمارے حال پر دودھ پیتے بچوں، گھاس چرتے جانوروں اور رکوع و سجود کرنے والے مشائخ کی وجہ سے رحم فرما۔
لیکن اس کے باوجود آسمان کے بادل سے صفائی اور بڑھ گئی اور دھوپ کی تمازت میں اضافہ ہوا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا اے اللہ ! اگر میرا مرتبہ تیرے نزدیک گھٹ گیا ہے تو اس نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے طفیل جسے آخر زمانے میں تو مبعوث فرمائے گا ہمیں بارش سے سیراب فرما۔
اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی کہ تیرا مرتبہ میرے ہاں کم نہیں ہوا تم بدستور میرے نزدیک ہو۔ لیکن تم میں ایک بندہ ہے جو چالیس سال سے میری نافرمانی کر کے میرا مقابلہ کرنا چاہتا ہے لوگوں میں اعلان کرا دو اور اس کو اپنے درمیان سے نکال دو، اسی کی وجہ سے تم سے بارش روک دی گئی ہے۔
موسیٰ علیہ السلام نے کہا اے مولا! میں کمزور بندہ ہوں اور میری آواز پست ہے، ستر ہزار میں میری آواز کیسے پہنچ سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم آواز لگاؤ پہنچانا میرا کام ہے۔
موسیٰ علیہ السلام کھڑے ہو گئے اور اعلان کیا: اے گنہگار بندے چالیس سال سے اللہ کی نافرمانی کر رہا ہے ہمارے درمیان سے نکل جاؤ تمہاری وجہ سے بارش روک دی گئی ۔ اس گنہگار نے دائیں بائیں نظر دوڑائی تو کسی کو نکلتے ہوئے نہ دیکھا اسے یقین ہو گیا کہ وہی مطلوب ہے اس نے اپنے دل میں کہا اگر سب لوگوں کے سامنے نکل جاؤں تو بنی اسرائیل کے سامنے رسوا ہو جاؤں گا اور اگر بٹھا رہوں تو میری وجہ سے ان سے بارش بند رہتی ہے۔ اس نے اپنا سر گریبان میں ڈالا اور سابقہ گناہوں پر پچھتایا اور التجا کی کہ
اے آقا! میں نے چالیس سال تیری نافرمانی کی لیکن تو نے مجھے ڈھیل دی اب فرماں بردار ہو کر آیا ہوں لہذا مجھے معاف فرما۔ اس نے اپنی بات پوری نہیں کی تھی کہ ایک سفید بدلی اٹھی اور زور سے موسلا دھار بارش برسی جیسے مشکیزے کے منہ سے پانی بہتا ہے
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: اے میرے آقا کیسے بارش برسائی حالاں کہ ہم میں سے کوئی نہیں نکلا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے تمہیں اس کی وجہ سے سیراب کیا جس کی وجہ سے تم سے بارش روک دی تھی۔
موسیٰ علیہ السلام نے کہا اے میرے رب! مجھے وہ فرمانبردار بندہ دکھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے موسیٰ جب وہ میری نافرمانی کرتا تھا اس وقت میں نے اس کو رسوا نہیں کیا اب جب کہ وہ میرا فرمانبردار ہے کیسے اس کا راز فاش کروں گا جب کہ میں چغل خور سے بغض رکھتا ہوں تو میں خود کیسے کسی بندے کا راز بتادوں۔
Free Urdu Islamic Kahaniyan
دل سویا ہے یا مویا ہے
ایک شخص حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کے پاس آیا، کہنے لگا کہ
حضرت ! پتہ نہیں ہمیں کیا ہو گیا ہے کہ ہمارے دل سیاہ ہو گئے ہیں تو انہوں نے پوچھا کہ کیا ہوا؟
کہنے لگا کہ حضرت آپ جب درس قرآن دیتے ہیں تو ہمارے دلوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے دل سیاہ ہو گئے ہیں، سخت ہو گئے ہیں۔
حضرت بصری رحمتہ اللہ علیہ نے یہ سنا تو فرمایا کہ
یوں نہ کہو کہ دل سیاہ ہو گیا بلکہ یوں کہو کہ ہمارے دل مردہ ہو گئے ہیں
یہ نہ کہو کہ ہمارے دل سو گئے بلکہ یہ کہو کہ ہمارے دل مو گئے ، مر گئے۔
وہ بڑا حیران ہوا کہ حضرت مر کیسے گئے؟
تو حضرت بصری رحمتہ اللہ علیہ نے آگے سے عجیب جواب دیا، فرمایا کہ
دیکھو ! جوسویا ہوا ہوتا ہے اسے جھنجھوڑا جائے تو وہ جاگ اٹھتا ہے، جو جھنجوڑنے سے بھی نہ جاگے وہ سویا ہوا نہیں
وہ مویا ( یعنی مرا )ہوا ہے
اس لئے کہ اللہ کا قرآن سنائیں اور جھنجھوڑیں پھر بھی دل نہ جاگے تو یہ دل سویا ہوا نہیں یہ دل مویا ہوا ہے
ایسے ہی مردہ دل والے لوگ بھی چلتی پھرتی انسانیت کی قبریں ہوتی ہیں۔ ان کی لاش ایک گھر ہے، قبر ہے، جس کے اندر مردہ پڑا ہوا ہے
(خطبات فقیر 35 ص 38)
چھ لاکھ سیٹوں والا ہوائی جہاز
تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ تخت سلیمان علیہ السلام جو ہوا پر چلتا تھا اس کی وضع قطع یہ بیان کی ہے کہ
سلیمان علیہ السلام نے لکڑی کا ایک بہت وسیع تخت بنوایا جس پر خود مع اعیان سلطنت اور مع لشکر اور آلات حرب کے سب سوار ہو جاتے۔
پھر ہوا کو حکم دیتے وہ اس عظیم الشان اور وسیع و عریض تخت کو اپنے کاندھوں پر اٹھا کر جہاں کا حکم ہوتا وہاں جا کر اُتار دیتی تھی۔
یہ ہوائی تخت صبح سے دوپہر تک ایک مہینہ کی مسافت طے کرتا تھا اور دو پہر سے شام تک ایک مہینہ کی یعنی ایک دن میں دو مہینوں کی مسافت ہوا کے ذریعے طے ہو جاتی تھی
ابن ابی حاتم نے حضرت سعید بن جبیر سے نقل کیا ہے کہ
اس تخت سلیمانی پر چھ لاکھ کرسیاں رکھی جاتی تھیں جس میں سلیمان علیہ السلام کے ساتھ اہل ایمان انسان سوار ہوتے تھے
اور ان کے پیچھے اہل ایمان جن بیٹھتے تھے پھر پرندوں کو حکم ہوتا تھا کہ وہ اس پورے تخت پر سایہ کر دیں تا کہ
آفتاب کی تپش سے کسی کو تکلیف نہ ہو
پھر ہوا کو حکم دیا جاتا کہ وہ اس عظیم الشان مجمع کو اُٹھا کر جہاں کا حکم ہوتا وہاں پہنچا دیتی تھی اور بعض روایات میں ہے کہ
اس ہوائی سفر کے وقت پورے راستہ میں حضرت سلیمان علیہ السلام اپنا سر جھکائے ہوئے اللہ کے ذکر و شکر میں مشغول رہتے تھے دائیں بائیں کچھ نہ دیکھتے تھے اور اپنے عمل سے تواضع کا اظہار فرماتے تھے
(ابن کثیر بحوالہ معارف القرآن جلد ۲ صفحه ۳۱۲)
مچھلی پر رحم کرنے کا انعام
قلیوبی صاحب بیان کرتے ہیں کہ ذوالنون مصری رحمہ اللہ دریا میں شکار کھیلتے تھے ایک مرتبہ وہ دریا پر شکار کرنے گیے توان
کے ساتھ ان کی ایک بچی بھی تھی
چنانچہ انہوں نے دریا میں جال ڈالا جس میں ایک مچھلی پھنس گئی ۔
اس بچی نے جال سے اس کو پکڑنا چاہا اس نے دیکھا کہ وہ پچھلی اپنے دونوں لب ہلا رہی ہے
پس لڑکی نے اس مچھلی کو دریا میں واپس پھینک دیا
ذوالنون نے جب اپنی بیٹی کی یہ حرکت دیکھی تو اس سے فرمایا کہ تو نے ہماری کمائی کیوں ضائع کر دی؟؟
بچی نے ان سے عرض کیا کہ میں اس مخلوق خداوندی کے کھانے پر راضی نہیں ہوں جو اللہ تعالٰی کا ذکر کرتی ہو
پس اس کے باپ نے اس سے کہا کہ
اب ہم کیا کریں اس نے کہا کہ ہم اللہ تعالی پر توکل کریں گے وہ ہم کو ایسا رزق دے گا جو اللہ تعالیٰ کا ذکر نہیں کرتا ہے
چنانچہ ذوالنون نے شکار چھوڑ دیا اور باپ بیٹی شام تک اللہ تعالیٰ پر توکل کر کے ٹھہرے رہے لیکن ان کے پاس کوئی چیز نہ آئی
جب عشاء کا وقت ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر آسمان سے خوان پر از طعام نازل فرمایا اور اس خوان پر مختلف قسم کے کھانے تھے اور تقریبا بارہ برس تک ہر رات کو خوان اترتا رہا
ذوالنون نے گمان کیا که نزول خوان کا سبب ان کی نماز روزہ عبادت اور ان کی طاعت ہے
جب وہ لڑکی اس دنیا سے کوچ کر گئی اس کے بعد نزول خوان بھی بند ہو گیا
اس وقت معلوم ہوا کہ نزول خوان لڑکی ہی کی وجہ سے تھا۔ اور ان کی وجہ سے بلکل نہ تھا
Urdu True Islamic Stories
ایک عاشق رسولﷺ کا عجیب و غریب واقعہ
حضرت مولانا وجیہ الدین صاحب رحمہ اللہ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ کے متعلقین میں سے تھے ۔
آپ حج کی ادائیگی کے لئے تشریف لے گئے۔ مدینہ منورہ پہنچ کر جب ویزہ کی مدت ختم ہونے لگی تو آپ نے متعلقہ دفتر میں جا کر ویزہ کی مدت بڑھانے کیلئے درخواست کی ۔
انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ بھی لکھ کر لائیں کہ آپ کیوں یہاں رہنا چاہتے ہیں۔
آپ نے اس وجہ والے خانے میں لکھ دیا ” للوفات ” یعنی یہاں فوت ہونے کیلئے ویزہ کی مدت بڑھوانا چاہتا ہوں
بہر حال دفتر والوں نے خانہ پری دیکھی اور پندرہ دن کیلئے آپ کا ویزہ بڑھا دیا
جب پندرہ دنوں میں سے صرف دو ایک دن باقی تھے تو آپ روضہ اقدس ﷺ پر حاضر ہوئے اور درخواست کی
یا رسول اللہ ﷺ ! مدت ختم ہونے کو ہے اب تو آپ مجھے اپنی طرف بلا لیں
بس پھر آپ اس مدت ختم ہونے سے پہلے ہی وہیں پر اللّٰہ کو پیارے ہو گئے – ( عجیب وغریب واقعات)
سبحان اللہ
شکوے کی پٹی
رابعہ بصر یہ رحمتہ اللہ علیہا ایک مرتبہ کہیں کھڑی تھیں۔
ان کے قریب سے ایک نوجوان گزرا اس نے اپنے سر پر پٹی باندھ رکھی تھی انہوں نے نوجوان سے پوچھا
بیٹا ! کیا ہوا؟
اس نے کہا اماں
میرے سر میں بہت درد ہے جس کی وجہ سے پٹی باندھی ہوئی ہے، پہلے کبھی ایسا درد نہیں ہوا۔
انہوں نے پوچھا، بیٹا! آپ کی عمر کتنی ہے؟
وہ کہنے لگا، جی میری عمر تیس سال ہے۔
یہ سن کر وہ فرمانے لگیں، بیٹا! تیرے سر میں تیس سال درد نہیں ہوا تو تو نے شکر کی پٹی تو کبھی نہیں باندھی، آج تجھے پہلی دفعہ درد ہوا ہے تو تو نے شکوے شکایات کی پٹی فور باندھ لی ہے؟؟؟
ہمارا حال بھی ایسا ہی ہے کہ ہم سالہا سال رب العزت کی عطا کردہ نعمتوں میں سکون کی زندگی گزارتے ہیں، تو اس کا شکر ادا نہیں کرتے اور جب ذراسی تکلیف پہنچتی ہے تو فورا شکوے کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔
اللّٰہ ہمیں شکر کی عظیم دولت سے نوازے۔ آمین
(خطبات فقیر)
زیارت کے بعد نا بینا ہونے کی تمنا
حضرت حافظ محمد عظیم آپ حافظ جی صاحب گنج والے کے نام سے بھی مشہور تھے ۔
جامع مسجد گنج کے امام خطیب و مدرس تھے۔ پشاور کا یہ محلہ حافظ محمد عظیم کے نام سے مشہور ہو گیا۔
حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ آپ کی محبت دیدنی تھی
ایک بار آپ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار پر انوار سے مشرف ہوئے تو عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ
آپ کے دیدار جمال سے شرف ہونے کے بعد یہ آنکھیں اب کسی اور کو دیکھنا نہیں چاہتیں ۔
جب بیدار ہوئے تو نا بینا ہو چکے تھے۔ آپ کی نہایت خوبصورت اور موٹی موٹی آنکھیں اب بے نور ہو چکی تھیں۔
سبحان اللہ ! کیا عشق محمدی ﷺ تھا۔ اسی عشق و محبت کا نتیجہ تھا کہ
اللہ تعالی نے آپ کو علم لدنی سے نوازا تھا۔ بغیر بینائی کے تمام عمر درس و تدریس میں گذاری۔
صحاح ستہ کی تمام اسانید ازبر تھیں۔ جب وصال فرمایا جنازے پر لوگوں کا اس کثرت سے ہجوم تھا کہ شہر کے لوگ حیران تھے
کہ اس قدر خلقت کہاں سے آگئی ہے۔
اللّٰہ اور س کے حبیب کے چنے ہوئے لوگ جب دنیا سے جاتے ہیں تو دنیا واقعی حیران ہو جاتی ہے۔
Urdu Stories In Urdu Text
سایہ دار درخت کا اجر
شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ کسی شخص نے خواب میں حشر کا میدان دیکھا
روئے زمین آفتاب کی وجہ سے تانبے کی طرح گرم تھی- تمام آدمیوں کا آسمان پر رش تھا۔ گرمی کی وجہ سے سب کے دماغ کھول رہے تھے۔
مگر ان میں ایک ایسا شخص بھی تھا جو سائے میں تھا۔ اس کے گلے میں جنت کا لباس تھا۔
خواب دیکھنے والے نے اس سے پوچھا کہ اے مجلس کی زینت کے انسان! اس مجلس میں تیرا مددگار کون تھا؟
تو نے دنیا میں ایسی کون سی نیکی کی تھی جو آج یہ شان نصیب ہوئی ہے؟؟
اس شخص نے جواب دیا کہ میں نے گھر کے دروازے پر انگور کی بیل لگائی تھی۔
ایک بار ایک نیک آ دمی اس کے سایہ میں سویا اس بھلے انسان نے اس نا امیدی کے وقت اللّٰہ سے میرے گناہ کے بارے میں درخواست کی کہ
اے خدا اس بندہ کی بخشش فرما دے اس لئے کہ میں نے اس سے ایک وقت آرام پایا ہے۔ (بوستان سعدی )
حضرت میاں جی نور محمد اور وقت کی قدر
حضرت نور محمد جنجا نوی رحمتہ اللہ علیہ کا یہ حال تھا کہ
جب بھی بازار کوئی چیز خریدنے جاتے تو ہاتھ میں پیسوں کی تھیلی ہوتی اور چیز خریدنے کے بعد خود پیسے گن کر دکاندار کو نہیں دیتے تھے بلکہ پیسوں کی تھیلی دکاندار کے سامنے رکھ دیتے اور اس سے کہتے کہ تم خود ہی اس میں سے پیسے نکال لو۔
اس لئے کہ اگر میں نکالوں گا اور اس کو گنوں گا تو وقت لگے گا ۔ اتنی دیر میں “سبحان اللہ” کئی مرتبہ پڑھ لوں گا۔
ایک مرتبہ وہ اپنے پیسوں کی تھیلی اٹھائے ہوئے جارہے تھے کہ
پیچھے سے ایک اچکا آیا اور ان سے وہ تھیلی چھین کر بھاگ کھڑا ہوا۔
حضرت میاں جی نور محمد نور نے مڑ کر بھی اس کو نہیں دیکھا کہ کون لے گیا اور کہاں گیا اور گھر واپس آگئے۔
اس لئے کہ انہوں نے سوچا کہ کون اس چکر میں پڑے ؟ اس کے پیچھے بھاگے اور اس کو پکڑے؟ بس اللہ اللہ کرو
ان کا مزاج یہ تھا کہ ہم اپنی زندگی کے اوقات کو کیوں ایسے کاموں میں صرف کریں جس میں آخرت کا فائدہ نہ ہو۔
آج کے دور میں ایسی مثالیں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتیں۔ آجکل سوشل میڈیا کے دور میں کس کا کتنا وقت ضائع ہو رہا ہے اور دین سے کس قدر دوری ہے، کوئی پرواہ نہیں ۔
اللّٰہ پاک ہم سب کو بھی اپنے وقت کی قدر کرنے والا بنا دے ، آمین ۔۔
(اصلاحی خطبات جلد ۳ ص ۲۱۶)
ایک اہم نصیحت سب کے لیے
حضرت ابراہیم بن ادہم رحمہ اللہ سے کسی نے پوچھا
”آپ کے نزدیک بہترین نصیحت کون سی ہے؟ فرمایا
” یہ چھ عادات اپنا لو
جب گناہ کرو تو اللہ کا رزق مت کھاؤ
گناہ کا ارادہ کرو تو اللہ کی سلطنت سے نکل جاؤ
ایسی جگہ برائی کرو جہاں اللہ نہ دیکھ رہا ہو
موت کا فرشتہ آئے تو اس سے تو بہ کی مہلت طلب کرو
منکر نکیر کو قبر میں داخل نہ ہونے دو
جہنم میں جانے کا حکم ملے تو جانے سے انکار کر دو
اس نے کہا: “حضرت! یہ باتیں تو ناممکن ہیں“
آپ نے فرمایا: ” تب پھر گناہ بھی نہ کرو
( حکمت نصیحت کے حیرت انگیز واقعات)
ایک معصوم لڑکی کی دیانت اور اسکی برکت
ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے غلام اسلم رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مدینہ منورہ میں شب کو گشت کر رہے تھے .
ایک مکان سے آواز سنی کہ ایک عورت اپنی لڑکی سے کہہ رہی ہے دُودھ میں تھوڑا سا پانی ملا دو۔
لڑکی نے کہا: امیر المومنین نے ابھی تو تھوڑے ہی دن ہوئے منادی کرائی ہے کہ دُودھ میں پانی ملا کر فروخت نہ کرو۔
عورت نے کہا اب نہ یہاں امیر المؤمنین ہیں نہ منادی کرنے والا ہے۔
لڑکی نے کہا: یہ دیانت کے خلاف ہے کہ رو برو تو اطاعت کی جائے اور غائبانہ خیانت۔
یہ گفتگو سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ بہت محظوظ ہوئے۔
لڑکی کی دیانتداری اور اسکی حق گوئی پر خوش ہو کر ( جو در حقیقت انہی کے حق پرست عہد حکومت کا نتیجہ تھی ) اپنے بیٹے عاصم کی اس سے شادی کر دی ۔
اس لڑکی کے بطن سے ام عاصم پیدا ہوئیں جو عمر بن عبدالعزیز جیسے نیک بخت اور عابد وزاہد خلیفہ کی والدہ ماجدہ تھیں۔
( حياة الحیوان)
Urdu Stories In Urdu Font
دین سے دوری ایک قومی المیہ
ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر صاحب کے والد کا انتقال ہوا تو انہوں نے ایک عالم دین سے کہا کہ
آپ نے نماز جنازہ پڑھانا ہے۔ جنازے کے بعد اس پی ایچ ڈی ڈاکٹر نے زارو قطار رونا شروع کر دیا۔
لوگوں نے اسے تسلی دی کہ اس طرح کا صدمہ ہر آدمی کو پیش آتا ہے اس لئے آپ کو بھی صبر کرنا چاہئے مگر وہ مسلسل روتا رہا۔
بالآخر عالم دین نے آگے بڑھ کر اس سے پوچھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ آپ اتنا رورہے ہیں؟؟
اس نے کہا کہ میں اس بات پر نہیں رورہا کہ والد فوت ہو گئےہیں۔ ہر ایک کو دنیا سے جاتا ہے۔
میں تو اس بات پر رورہا ہوں کہ میرے والد صاحب نے مجھے اس حد تک دنیا دی تعلیم دلوائی کہ میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر بن گیا۔
مگر مجھے دین سے اتنا بے بہرہ رکھا کہ میرے والد کی میت میرے سامنے پڑی تھی اور مجھے نماز جنازہ بھی نہیں آتی تھی
(جواہرات فقیر 3 ص 174)
ہمارے معاشرے میں کہیں پر ڈگریوں کی دوڑ نے اور کہیں پر سوشل میڈیا کے بے دریغ استعمال نے قوم کو دین سے دور کر رکھا ہے۔ آپ زندگی میں جو بھی جدوجھد کر رہے ہیں اس میں دین اور تمام دینی معاملات کو پہلی ترجیح حاصل ہونی چاہیئے ۔
اللّٰہ تعالیٰ دین پر استقامت عطا فرمائیں- آمین
پل صراط
حضرت ثابت رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ حضرت عبید بن عمیر اپنے وعظ میں پل صراط کے بارے میں فرمارہے تھے
وہ ایک پل ہے جو بچھا ہوا ہے اس کے اوپر پھسلن اور لڑھکنے کی جگہ ہے۔
کوئی گزرے گا اور نجات پائے گا اور کوئی تیز دوڑے گا تو گر پڑے گا۔
ملائکہ علیہم السلام اس کے اوپر کھڑے ہوں گے کہہ رہے ہوں گے اللهم سلم سلم
حضرت عبیدہ بن عمیر رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ
دنیا کی ایک مدت ہے اور آخرت تو رہنے والی چیز ہے ( دل کی باتیں)
کلمہ اسلام کا اقرار کرنا
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ
میرے اسلام کے ابتدائی ایام تھے کہ میری بہن نے اونٹ کے بچے کو مارا ۔
اس لئے میں گھر سے نکلا تو اندھیری رات میں کعبتہ اللہ میں داخل ہوا۔
اتنے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور حجر اسود میں داخل ہو گئے اور جتنی چاہی نماز پڑھی
پھر واپس ہوئے اس وقت میں نے ایسی چیز سنی کہ اس جیسی پہلے نہیں سنی تھی
میں بھی نکلا اور آپ کے پیچھے ہولیا۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کون ہے؟
میں نے عرض کیا ” عمر ”
فرمایا اے عمر ! تم تو مجھے نہ رات کو چھوڑتے ہو نہ دن کو؟
میں ڈر گیا کہ کہیں مجھے بددعا نہ دے دیں تو میں نے کہا
“اشهد ان لا اله الا الله و اشهدانک رسول الله “
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے عمر ! اسے چھپائے رکھو
میں نے عرض کیا قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے
میں اس کا بھی ویسے ہی اعلان کروں گا جیسا شرک کا کرتا تھا۔ ( ۳۱۳ روشن ستارے )
معجزانہ واقعات نبوی ﷺ
عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالٰی عنہ جو ایک جلیل القدر بدری صحابی ہیں، فرماتے ہیں کہ
ایک دن میں حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ہاں ایک دعوت پر حاضر ہوا
ایک باندی میرے لئے ایک تولیہ لائی، تولیہ کافی میلا تھا۔
حضرت انس نے کہا کہ اس کو صاف کر کے لے آؤ۔
وہ باندی بھا گتی گئی اور جلتے تندور میں اس تولیے کو ڈالا اور اٹھا کر واپس لے آئی۔
میں نے دیکھا کہ وہ تولیہ بالکل صاف ستھرا میرے سامنے تھا۔
مجھے حیرانگی ہوئی میں نے حضرت انس سے پوچھا کہ اس میں کیا راز ہے ؟
انہوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے تھے
میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ مبارک دھلوائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہاتھ خشک کرنے کیلئے یہ تولیہ پیش کیا
جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ مبارک خشک کئے، اس دن سے آگ نے اس تولیے کو جلانا چھوڑ دیا۔
(سبحان اللہ)
جب یہ میلا ہو جاتا ہے ہم اسے آگ میں ڈالتے ہیں آگ اس میل کو تو کھا لیتی ہے۔ صاف تولیہ ہم آگ سے باہر نکال لیتے ہیں۔
سیدہ فاطمہ الزہراء رضی اللہ تعالٰی عنہا نے روٹیاں لگا ئیں – نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی ایک دو بنا کر دیں ۔
کافی دیر کے بعد جب سب لگ گئیں تو حیران ہوئیں کہ اس میں سے ایک دو پک ہی نہیں رہیں ، اسی طرح آٹے کا آٹا موجود ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، بیٹا! کیا ہوا؟
عرض کیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ! دو تین روٹیاں ایسی ہیں جو پک نہیں رہیں۔ فرمایا
ہاں یہ وہی روٹیاں ہوں گی جن پر تیرے والد کے ہاتھ لگ گئے۔ اب آگ اس آٹے پر اثر نہیں کر سکتی۔
تو میرے نبی علیہ السلام جس چیز کو چھو لیتے تھے اس پر یوں اثرات ہو جاتے تھے۔
( خطبات فقیر ج 2 ص 92)
زکوٰۃ کی برکت
حافظ فضل حق صاحب خزانچی مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور مرحوم کا تکیہ کلام تھا، ” اللہ کے فضل سے”
ہر بات میں یہی جملہ ارشاد فرماتے
اور اس عادت کا اثر ان کے صاحبزادے حافظ زاہد حسن صاحب مرحوم میں بھی تھا وہ بھی ہر بات میں ” اللہ کا فضل ” فرمایا کرتے تھے
بہر حال ایک مرتبہ حافظ صاحب نے حضرت مولانا محمد مظہر صاحب سے عرض کیا
حضرت جی رات تو اللہ کے فضل سے اللہ کا غضب ہی ہو گیا تھا۔
حضرت نے ہنس کر فرمایا بھائی حافظ جی رات اللہ کے فضل سے کیا غضب ہو گئے تھے؟
عرض کیا کہ حضرت ! میں سورہا تھا گھر میں چور گھس گئے اور تالہ توڑنے لگے میری آنکھ کھل گئی۔
میں نے پوچھا تم چور ہو ؟
انہوں نے کہا کہ ہاں ! میں نے کہا کہ میرا سارا رو پیہ اس کوٹھڑی میں ہے اور بہت سارا ہے ۔ ( آپ مشہور رئیس ہونے کے ساتھ ساتھ مدرسہ مظاہر علوم کے خزانچی بھی تھے) مگر اللہ کے فضل سے تم اس کو لے نہیں سکتے ہو اور دیکھو یہ تالہ جو اس کو لگ ہے چھ پیسے کا ہے مگر تمھارے باوا سے بھی نہ ٹوٹے گا۔
اس واسطے کہ مولوی جی (یعنی حضرت مولانا محمد مظہر صاحب) نے بتلایا تھا کہ جس مال کی زکوۃ دے دیجائے وہ اللہ کی حفاظت میں آجاتا ہے۔
اور میں اس کی خوب زکوۃ دے چکا ہوں ۔حضرت جی یہ کہہ کر میں تو سو گیا ۔ جب تہجد کے واسطے اٹھا تو وہ سب تالہ جھنجھوڑ رہے تھے مگر وہ ذرا بھی نہ ٹوٹا اور اللہ کے فضل سے صبح ہوتے ہی وہ بھاگ گئے ( تاریخ مظاہر )
Urdu True Islamic Stories
باندی کی حکمت کا واقعہ
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مومنین اور متقین کی خاص صفات و علامات بتلائی ہیں جن میں سے ایک یہ ہے وہ غصہ کو پی لیتے ہیں۔
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے سید السادات حضرت امام زین العابدین کا ایک عجیب واقعہ نقل کیا ہے
کہ امام زین العابدین رحمہ اللہ کی ایک کنیز آپ کو وضو کرارہی تھی کہ اچانک پانی کا برتن اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر امام زین العابدین کے اوپر جا گرا آپ کے تمام کپڑے بھیگ گئے۔
غصہ آنا طبیعی امر تھا۔ کنیز کو خطرہ ہوا تو اس نے فورا یہ آیت پڑھی
وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ (وہ اپنے غصہ کو پی جاتے ہیں) یہ سنتے ہی آپ کا سارا غصہ ٹھنڈا ہو گیا آ پ بالکل خاموش ہو گئے
اس کے بعد کنیز نے آیت کا دوسرا جملہ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ (لوگوں کو معاف کرتے ہیں ) پڑھ دیا آپ نے فرمایا
میں نے تجھے دل سے معاف کر دیا۔ پھر اس نے تیسرا جملہ بھی سنا دیا۔
وَاللهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (اللہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتے ہیں )
امام زین العابدین رحمہ اللہ نے یہ سن کر فرمایا کہ جا میں نے تجھے آزاد کر دیا ” (روح المعانی ج ۲ ص ۵۹)
اہل جنت کو آرام
حضرت محمد بن منکد رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائیں گے
وہ لوگ کہاں ہیں جو اپنے نفوس اور اپنے کانوں کولہو ولعب اور بانسریوں سے باز رکھتے ، ان کو جنت کے باغوں میں
داخل کر دو پھر ملائکہ سے فرمائیں گے
انکو میری حمد وثناء سناؤ اور بتلا دو اب نہ تو انکو خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہو نگے ۔( دل کی باتیں)
اللہ موجود ہے
ایک فرانسیسی صحافی جسے خدا کی ذات سے انکار تھا افغانستان میں تقریباً چھ ماہ مختلف محاذوں اور مور چوں پر
مجاہدین کے حالات و واقعات کو بغور دیکھتا رہا، مشاہدے کرتا رہا۔
اپنے ملک واپس جا کر اس نے “رایت اللہ فی افغانستان” کے نام سے ایک کتاب لکھی۔
جس میں وہ لکھتا ہے کہ میں نے مسلمانوں کے اللہ کو افغانستان میں دیکھ لیا کہ واقعی اللہ موجود ہے ۔
مجاہدین35 کلاشنکوفیں لے کر گئے اور دشمن کے ایک سو پچاس آدمیوں کو گرفتار کر کے لے آئے ۔
پچاس مجاہدین گئے اور دشمن کے اڑھائی سو ٹینک تباہ کر دیئے ۔ کبھی آسمان سے گھوڑوں کو دیکھتے ہیں۔
کبھی کسی شہید کو دیکھا کہ اس کے خون سے خوشبو آرہی ہے۔
کبھی کوئی مجاہد زخمی ہوگیا اسکی دونوں ٹانگیں کٹ گئیں مگر آخری وقت میں بھی وصیت کرتا ہے کہ
میرے ساتھیو! کبھی جہاد نہ چھوڑنا کہ جو چیز میں مرتے وقت دیکھ رہا ہوں تمہیں بھی نصیب ہو جائے ۔ یادگار واقعات
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری پیغام
نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام اس دنیا سے پردہ فرمانے لگے تو سب سے آخری بات حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے کان لگا کر سنی تو نبی علیہ الصلوۃ والسلام فرمارہے تھے۔
” التوحید التوحید “
ایک تو آخری موقع پر آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے توحید کا پیغام دیا اور فرمایا
و ما ملكت ايمانكم
اپنے ماتحتوں کے حقوق کا خیال رکھنا۔
یوں سمجھیں نبی علیہ الصلوۃ والسلام کی پوری زندگی اور تعلیمات کا یہ نچوڑ ہے جو آخری لفظوں میں نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے انسانیت کو دے دیے ۔ وہ یہ کہ اپنے ماتحتوں کا خیال رکھنا۔
زرا سوچیں ہمارے ماتحتوں کے ساتھ ہمارا کیا معاملہ ہوتا ہے؟
کیسے ان کے ساتھ ، ہم مل کر رہتے ہیں؟ ( جواہرات فقیر 23 ص 223 )
دنیا والوں کا کب تک خیال کرو گے؟
حضرت مولانا محمد ادریس صاحب کاندہلوی رحمۃ اللہ علیہ اللہ تعالی ان کے درجات بلند فرمائے. آمین
اس دور کے اندر اللہ تعالیٰ نے جتنے بزرگ پیدا فرمائے تھے ان کے گھر کی بیٹھک میں فرشی نشست ہوتی تھی
گھر کی خواتین کے دل میں یہ خیال آیا کہ اب زمانہ بدل گیا ہے، فرشی نشست کا زمانہ نہیں رہا ۔ اس مولانا سے کہا کہ اب آپ یہ فرشی نشست ختم کر دیں اور صوفے وغیرہ لگا دیں۔
حضرت مولانا نے فرمایا کہ مجھے تو نہ صوفے کا شوق ہے اور نہ مجھے اس پر آرام ملے گا۔ مجھے تو فرش پر بیٹھ کر آرام ملتا ہے۔ میں اسی پر بیٹھ کر کام کروں گا۔
خواتین نے کہا کہ آپ کو اس پر آرام ملتا ہے، مگر دنیا والوں کا تو کچھ خیال کر لیں۔ جو آپ کے پاس ملنے کے لیے آتے ہیں ان کا ہی کچھ خیال کرلیں۔
اس پر حضرت مولانا نے کیا عجیب جواب دیا، فرمایا
بی بی ! دنیا والوں کا تو میں خیال کر لوں لیکن یہ تو بتاؤ کہ دنیا والوں نے میرا کیا خیال کر لیا؟
میری وجہ سے کسی نے اپنے طرز زندگی میں کوئی تبدیلی لائی ہو جب انہوں نے میرا خیال نہیں کیا تو میں ان کا کیوں خیال کروں؟ (اصلاحی خطبات جلد اس ۱۵۸)
درود شریف کی کثرت کے فضائل
شیخ المشائخ حضرت شبلی نوراللہ مرقدہ سے نقل کیا گیا ہے کہ: میرے پڑوس میں ایک آدمی مر گیا۔ میں نے اس کو خواب میں دیکھا، میں نے اس سے پوچھا، کیا گزری؟
اس نے کہا، شبلی بہت ہی سخت پریشانیاں گزریں اور مجھ پر منکر نکیر کے سوالات کے وقت گڑ بڑ ہونے لگی میں نے اپنے دل میں سوچا کہ یا اللہ یہ مصیبت کہاں سے آرہی ، کیا میں اسلام پر نہیں مرا؟
مجھے ایک آواز آئی کہ یہ دنیا میں تیری زبان کی بے احتیاطی کی سزا ہے۔
جب ان دونوں فرشتوں نے میرے عذاب کا ارادہ کیا تو فوراً ایک نہایت حسین شخص میرے اور ان کے درمیان حائل ہو گیا ۔ اس میں سے نہایت ہی بہتر خوشبو آرہی تھی۔ اس نے مجھ کو فرشتوں کے جوابات بتا دیے، میں نے فورا کہہ دیئے۔
میں نے ان سے پوچھا، اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے، آپ کون صاحب ہیں؟
انہوں نے کہا، میں ایک آدمی ہوں جو تیرے کثرت درود سے پیدا کیا گیا ہوں، مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں ہر مصیبت میں تیری مدد کروں۔ ( فضائل درود شریف ۹۷)
صدقہ کس کو دیں؟
سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے ایک بزرگ مولا نا عبدالغفور مدنی رحمتہ اللہ علیہ ایک مرتبہ بیت اللہ شریف کے سامنے حرم شریف میں بیٹھے تھے، ایک آدمی آیا اور آکر کہنے گا
حضرت ! یہاں بہت سے مانگنے والے ہوتے ہیں، کیا پتہ کون مستحق ہے؟ اور کون مستحق نہیں ہے؟ کس کو دیں اور کس کو نہ دیں؟
تو حضرت نے فرمایا
یہ بتاؤ اللہ رب العزت کے تمہارے اوپر کتنے انعامات ہیں؟ کتنی نعمتیں ہیں کیا تم ان سب نعمتوں کے مستحق تھے؟
کہنے لگا نہیں . حضرت ! میری اوقات تو اتنی نہیں تھی، اللہ نے مجھے میری اوقات سے بڑھ کر دیا
فرمایا: جب اللہ نے تمہیں تمہاری اوقات سے بڑھ کر دیا ہے ۔ ناپ تول کے بغیر تمہیں عطا کر دیا تو تم سے اگر کوئی مانگنے والا آئے تو تم بھی اسے دے دیا کرو۔
جواہرات فقیر 23 ص183)
مقدر کا رزق مل کر رہتا ہے
ایک ڈاکٹر صاحب کو اپنے کسی دوست کے آنے کا انتظار تھا۔ وہ ان کی خاطر تواضع کرنے کیلئے ہوٹل سے کھانا لینے گئے. انہوں نے مہمان کے اکرام کیلئے ایک مرغی روسٹ کرنے کو بولا اور خود ہوٹل سے ذرا ہٹ کر کھڑے ہو گئے۔
قریب ہی کچھ مسکین لوگ بیٹھے آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ ان میں سے ایک کہنے لگا
یار! بھوک لگی ہے اب کھانے کا انتظام کہاں سے ہوگا؟
دوسرے نے کہا کہ رزق کا ذمہ تو اللہ تعالیٰ نے لے رکھا ہے وہ خود ہی رزق بھیج دے گا۔
ڈاکٹر صاحب ان کی باتیں سن کر مسکرا رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ ان غریب مسکین آدمیوں کا اللہ تعالیٰ پر کس قدر پختہ یقین ہے
اچانک ان کے موبائل کی گھنٹی بجی۔
انہوں نے فون سنا تو وہی دوست کہہ رہے تھے کہ جی میں معذرت چاہتا ہوں، میں آج آپ کے پاس نہیں پہنچ سکتا۔
ڈاکٹر صاحب نے وہ روسٹ کی ہوئی مرغی ان مسکینوں کو دیدی اور وہ خوش ہو کر اسے دعائیں دینے لگے ۔ (جواہرات فقیر 13 ص 169)
دنیا کی دوڑ میں دین سے بے فکری
حضرت پیر ذوالفقار احمد نقشبندی فرماتے ہیں
ایک مرتبہ ہم ساؤتھ افریقہ میں تھے۔ وہاں ایک ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی۔
ان کا طرز زندگی انگریزوں والا تھا۔ وہ بڑی خوشی سے بتانے لگے کہ میں بھی ڈاکٹر ہوں ، میرے تین بیٹے بھی ڈاکٹر ہیں، پھر ان کی بیویاں بھی ڈاکٹر ہیں، ہماری فیملی میں آٹھ نو ڈاکٹر ہیں۔ کوئی انگلینڈ میں ہے، کوئی امریکہ میں ہے اور کوئی فلاں جگہ پر ہے
اب سوچئے کہ ان کو فقط اس بات پر ناز ہے کہ ان کے خاندان میں آٹھ نومیڈیکل ڈاکٹر ہیں اور اس بات کی پروا بھی نہیں کہ ان میں سے کون دین پر ہے اور کون دین پر نہیں ہے ۔
یہی وہ لوگ ہیں جو دنیا کی زندگی پر خوش ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے بڑا اچھا کام کر لیا ہے، حالانکہ یہ خسارہ اٹھانے والے ہیں۔
قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالَاتِ الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنعًا …. (سورة ق ۱۰۴۱۰۳)
کہہ دیجئے کہ میں آپ کو اعمال کے اعتبار سے سب سے زیادہ خسارہ پانے والوں کے بارے میں نہ بتاؤں، وہ لوگ جن کی تمام کوششیں دنیا کیلئے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہم بہت اچھا کام کر رہے ہیں ( جواہرات فقیر 10 ص 195)
خدمت کا صلہ
حضور علیہ السلام کے ایک صحابی صعصعہ بن ناجیہ تھے تابعین میں حضرت علی کے شاگردوں میں سے تھے ( مشہور شاعر) فرزدق کے دادا بھی تھے انہوں نے حضور علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ
جاہلیت کے زمانے میں، میں نے تین سو ساٹھ بچیوں کی جان بچائی ہے، مشرکین ان کو زندہ درگور کرنا چاہتے تھے
مگر میں نے ہر بچی کے عوض دوگابھن اونٹنیاں اور ایک اونٹ دے کر ان کو خرید لیتا اور یوں ان کی جان بچائی ۔
حضور اب فرمائیں کہ اس عمل کا مجھے کوئی فائدہ ہوگا؟
حضور علیہ السلام نے فرمایا کیا یہ فائدہ کم ہے کہ اللہ تعالی نے تجھے اسلام قبول کرنے کی توفیق بخشی
اور تو نے یہ نیکی کا کام کیا تو اللّٰہ تعالی نے تجھے یہ صلہ دیا ۔ (طبرانی)
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حکمت
سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کواللہ رب العزت نے خوب مال و دولت دیا تھا لیکن ان کے دل میں مال کی قطعاً محبت نہیں تھی ۔
وہ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے ذرا بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔
بئررومہ” ایک کنواں تھا جو ایک یہودی کی ملکیت میں تھا۔ “
اس وقت مسلمانوں کو پانی حاصل کرنے میں کافی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
وہ اس یہودی سے پانی خریدتے تھے۔
جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ مسلمانوں کو پانی حاصل کرنے میں کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ یہودی کے پاس گئے اور اس سے فرمایا کہ یہ کنواں فروخت کر دو۔
اس نے کہا میری تو بڑی کمائی ہوتی ہے میں تو نہیں بیچوں گا ۔
یہودی کا جواب سن کر سید نا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ
آپ آدھا حصہ بیچ دیں اور قیمت پوری لے لیں۔
وہ یہودی نہ سمجھ سکا۔ اللہ والوں کے پاس فراست ہوتی ہے
یہودی نے کہا ہاں ٹھیک ہے آدھا حق دوں گا اور قیمت پوری لوں گا۔
چنانچہ اس نے قیمت پوری لے لی اور آدھا حصہ دے دیا اور کہا کہ ایک دن آپ پانی نکالیں اور دوسرے دن ہم پانی نکالیں گے۔
جب سید نا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اسے پیسے دے دیئے تو آپ نے اعلان کروا دیا کہ میری باری کے دن مسلمان اور کافرسب بغیر قیمت کے اللہ کیلئے پانی استعمال کریں۔
جب لوگوں کو ایک دن مفت پانی ملنے لگا تو دوسرے دن خرید نے والا کوئی نہیں ہوتا تھا۔
چنانچہ وہ یہودی چند مہینوں کے بعد آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا
جی آپ مجھ سے باقی آدھا بھی خرید لیں۔ چنانچہ آپ نے باقی آدھا بھی خرید کر اللّٰہ کیلئے وقف کر دیا۔ (خطبات فقیر )
ہارون الرشید
ہارون الرشید کا ایک لڑکا باپ کے پاس آیا جو غصہ میں بھرا ہوا تھا کہ مجھ کو فلاں سپاہی کے لڑکے نے ماں کی گالی دی ہے
ہارون الرشید نے اراکین سلطنت سے پوچھا کہ ایسے شخص کی کیا سزا ہو سکتی ہے؟؟
ایک نے قتل کرنے کا مشورہ دیا اور ایک نے زبان کاٹنے اور دوسرے نے جرمانہ کرنے اور شہر بدر کرنے کو کہا۔
ہارون رشید نے کہا
اے لڑکے بزرگی تو یہ ہے کہ تو معاف کر دے اور اگر معاف نہیں کر سکتا تو
تو بھی اس کو ماں کی گالی دے اتنی کہ حد سے نہ بڑھے۔ پس اس وقت ظلم تیری جانب سے ہو گا
اور دعوئ دشمن کی جانب سے ہو گا- (گلستان سعدی)
جمعہ کی دعا
حضرت جابر بن زید رضی اللہ عنہا کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے عثمان بن حکیم کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: جب جمعے کا دن ہو تو مسجد کے دروازہ پر کھڑے ہو کر یہ دعا کرو
اے اللہ! مجھے آج کے دن اپنی طرف متوجہ ہونے والوں میں سب سے زیادہ متوجہ ہونے والا اور آپ کا قرب حاصل کرنے والوں میں سے سب سے زیادہ قرب حاصل کرنے والا اور آپ سے دعا کرنے اور مانگنے والوں میں سب سے زیادہ دعا کرنے والا اور مانگنے والا بنا دیجئے- (دل کی با تیں )
آداب مسجد
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ وہ لوگ مسجدوں میں حلقے بنا کر بیٹھے ہوں گے اور ان کا مقصد دنیا ہوگا۔
ان لوگوں کے ساتھ مت بیٹھنا اس لئے کہ اللہ تعالی کو ان کی کوئی ضرورت نہیں۔ ( دل کی باتیں)
علامہ اقبال کا جذبہ خدمت
علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ ایک دن والد مرحوم نے مجھ سے کہا۔
میں نے تمہارے پڑھانے لکھانے میں جو محنت صرف کی ہے میں تم سے اس کا معاوضہ چاہتا ہوں۔
میں نے بڑے شوق سے پوچھا وہ کیا ہے ؟
والد مرحوم نے کہا ۔ کسی موقع پر بتاؤں گا۔
چنانچہ انہوں نے ایک دفعہ کہا بیٹا! میری محنت کا معاوضہ یہ ہے کہ تم اسلام کی خدمت کرنا۔
بات ختم ہوگئی۔ اس کے بعد میں نے امتحان وغیرہ دے کر اور کامیاب ہو کر لاہور میں کام شروع کیا۔ ساتھ ہی میری شاعری کا چرچا پھیلا نوجوانوں نے اس کو اسلام کا ترانہ بنایا۔
پھر دوسری نظمیں لکھیں اور لوگوں نے ان کو ذوق و شوق سے پڑھا اور سنا اور سامعین میں ولولہ پیدا ہونے لگا۔ تو ان ہی دنوں میرے والد مرض الموت میں بیمار ہوئے۔ میں ان کو دیکھنے لاہور سے آیا کرتا تھا۔
ایک دن میں نے ان سے پوچھا والد بزرگوار! آپ سے جو میں نے اسلام کی خدمت کا عہد کیا تھا وہ پورا کیا یا نہیں؟
باپ نے بستر مرگ پر شہادت دی جان من تم نے میری محنت کا معاوضہ ادا کر دیا۔
(یادگار واقعات)
دینار کی وجہ تسمیہ
ایک مرتبہ امام مالک بن دینار رحم اللہ کشتی میں سفر کر رہے تھے اور منجدھار میں پہنچ کر جب ملاح نے کرایہ طلب کیا
تو فرمایا کہ میرے پاس دینے کو کچھ بھی نہیں ہے۔
یہ سن کر اس نے بدکلامی کرتے ہوئے آپ کو اتنا زدو کوب کیا کہ آپ کو غش آ گیا
اور جب غشی دور ہوئی تو ملاح نے دوبارہ کرایہ طلب کرتے ہوئے کہا کہ
اگر تم نے کرایہ ادا نہ کیا تو میں دریا میں پھینک دوں گا۔
اسی وقت اچانک کچھ مچھلیاں منہ میں ایک ایک دینار دبائے ہوئے پانی کے اوپر کشتی کے پاس آئیں
اور آپ نے ایک مچھلی کے منہ سے دینار لے کر کرایہ ادا کر دیا
ملاح یہ حال دیکھ کر قدموں میں گر پڑا اور آپ کشتی میں سے دریا پر اتر گئے
اور پانی میں چلتے ہوئے نظروں سے اوجھل ہو گئے
اسی وجہ سے لفظ دینار آپ کے نام کا حصہ بن گیا۔
(یادگار واقعات)
سونے کی زنجیر
حضرت ثوبان سے منقول ہے کہ
ایک مرتبہ حضور نبی کریمﷺ حضرت سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللّٰہ عنہا سے ملاقات کے لئے ان کے گھر تشریف لے گئے ۔
حضرت سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللّٰہ عنہا کے گلے میں اس وقت سونے کی ایک زنجیر تھی۔
آپ نے وہ زنجیر حضور نبی کریمﷺ کو دکھائی اور کہا یہ مجھے ابوالحسن (حضرت سید نا علی المرتضی) نے دی ہے۔
حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا ۔
اے فاطمہ ! کیا تمہیں اچھا لگتا ہے کہ لوگ کہیں کہ فاطمه بنت محمدﷺ کے ہاتھوں میں جہنم کی زنجیر ہو؟“
یہ فرما کر حضور نبی کریمﷺ وہاں سے تشریف لے گئے ۔
حضرت سیدہ فاطمہ الزہرا نے وہ زنجیر فروخت کر کے اس کی قیمت سے ایک غلام آزاد کر دیا۔
حضور نبی کریمﷺ کو جب معلوم ہوا تو آپﷺ نے فرمایا۔
تمام تعریفیں اللّٰہ ہی کے لئے ہیں جس نے فاطمہ رضی اللّٰہ عنہا کو دوزخ سے نجات عطا فرمائی۔
حسین کریمین رضی اللہ عنھم کے جنتی جوڑے
روایات میں آتا ہے کہ
ایک مرتبہ رمضان المبارک کے آخری روزے میں حسنین کریمین نے حضرت سیدہ فاطمہ الزہرارضی اللّٰہ عنہا سے ضد کی کہ
ہمیں عید کے لئے نئے کپڑے بنوا دیں ۔ گھر میں اس وقت نہایت تنگدستی کا عالم تھا اور نئے کپڑے بنانے بہت مشکل تھے۔
حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللّٰہ عنہا نے ان کی ضد دیکھتے ہوئے وعدہ کر لیا کہ تم دونوں عید پر نئے کپڑے ہی پہنو گے۔
اس رات آپ ساری رات جاگتیں رہیں اور اللّٰہ عزوجل کی عبادت میں مشغول رہیں۔
تہجد کے نوافل ادا کرنے کے بعد آپ رضی اللّٰہ عنہا نے اللّٰہ عزوجل کی بارگاہ میں دعا کرتے ہوئے کہا۔
الہیٰ! میں تیری کنیز ہوں اور تو میرے وعدے کو پورا فرمانے والا ہے۔
الہیٰ ! تو جانتا ہے کہ میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اور نہ ہی کبھی جھوٹا وعدہ کیا ہے۔
میں نے اپنے بچوں سے کپڑوں کا جو وعدہ کیا ہے اسے پورا فرما دے
حسنین کریمین نے جب عید پر اپنے کپڑے مانگے تو حضرت سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللّٰہ عنہا نے فرمایا۔
میں ابھی لے کر آتی ہوں۔
اسی وقت اللّٰہ عزوجل نے حضرت جبرائیل علیہ السّلام کو حکم دیا اور وہ حسنین کریمین کے لئے جنت کے دو جوڑے لے کر
حضرت سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللّٰہ عنہا کی خدمت میں پہنچے اور انہیں پیش کر دیئے۔
سبحان اللّٰہ
کیا لیول تھا اللّٰہ پر ایمان کا۔۔
اپنی موت کی پیشگی خبر دینا
روایات میں آتا ہے کہ
حضرت سید نا علی المرتضی حضرت سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللّٰہ عنہا کے وصال کے روز جب گھر تشریف لائے
تو حضرت سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللّٰہ عنہا نے بیماری اور کمزوری کے باوجود آٹا گوندھا اور اپنے ہاتھ سے روٹیاں پکائیں۔
پھر حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللّٰہ عنہا اور بچوں کے کپڑے دھوئے۔
حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللّٰہ عنہا نے فرمایا۔
فاطمہ میں نے تمہیں کبھی دو کام اکٹھے نہیں کرتے دیکھا آج تم کام اکٹھے کر رہی ہو۔“
حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللّٰہ عنہا نے فرمایا۔
میں نے رات خواب میں اپنے والد بزرگوار حضور نبی کریم صلیٰ اللہُ علیہ وآلہ وسلّم کو دیکھا۔
آپﷺ میرے منتظر تھے میں نے عرض کیا میری جان آپ کی جدائی میں نکل رہی ہے۔
آپ نے فرمایا کہ فاطمہ میں بھی تمہارا انتظار کر رہا ہوں
پس اس خواب کے بعد میں نے جان لیا کہ میرا اس دنیا میں یہ آخری دن ہے اور میں اب اس دنیا سے پردہ فرمانے والی ہوں۔
میں نے یہ روٹیاں اس لئے پکائی ہیں کہ کل جب آپ رضی اللّٰہ عنہا میرے غم میں مبتلا ہوں
تو میرے بچے بھو کے نہ ر ہیں اور کپڑے اس لئے دھو دئیے ہیں کہ میرے بعد جانے کون کپڑے دھوئے ؟
حضرت سید نا علی المرتضی ضی اللّٰہ عنہا نے جب حضرت سیدہ فاطمہ الزہرا ضی اللّٰہ عنہا کی باتیں سنیں
تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے ۔
حضور نبی کریم کی جدائی اور اب حضور نبی کریم کی لاڈلی صاحبزادی کی جدائی آپ کے لئے ایک بڑا صدمہ تھا۔
حضرت سیدہ فاطمہ الزہرا ضی اللّٰہ عنہا نے جب آپ کی کیفیت دیکھی تو فرمایا۔
آپ غم نہ کریں اور جیسے آپ نے پہلے صبر کیا اب بھی صبر کیجئے بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بکری
امام فخر الدین رازی نے جو بہت بڑے مفسر ہیں اپنی تفسیر کبیر میں یہ واقعہ لکھا ہے کہ
نبوت ملنے سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ریوڑ سے ایک بکری بھاگ گئی ان کو پکڑنے کے لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام دوڑ ے۔ وہ بھاگتے بھاگتے میلوں دور چلی گئی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام لاٹھی لیے پیچھے پیچھے دوڑ رہے ہیں
کانٹوں سے آپ کے پاؤں مبارک لہولہان ہو گئے اور بکری کا بھی یہی حال ہو گیا ، تمام کانٹے چبھ گئے۔ اس کے پاؤں سے بھی خون بہہ رہا تھا۔ آخر میں وہ تھک گئی اور کھڑی ہو کر ہانپنے لگی تب آپ نے اس بکری کو پکڑ لیا۔
بتائیے اگر ہم یا آپ پکڑتے تو کیا کرتے ، نہ معلوم اس کی کتنی پٹائی کرتے بلکہ چھری سے ذبح ہی کر ڈالتے لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کیا کیا؟
اپنے کانٹوں سے پہلے اس کے کانٹے نکالے اور اس کے پیر دبانے لگے۔ اس کے بعد اس کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیا اور جہاں سے وہ بکری بھاگی تھی اُس جگہ تک پہنچا دیا۔
اُس وقت آپ کو غصہ نہیں آیا بلکہ آپ کے آنسو بہہ رہے تھے اور یہ فرمایا
اے بکری اگر تجھ کو موسیٰ پر رحم نہیں آ یا تو اپنے اوپر تو رحم کرتی تو نے خود کو اتنی مصیبت میں کیوں ڈالا ؟”
امام فخرالدین رازی لکھتے ہیں کہ فرشتوں نے اللہ سے گذارش کی کہ
یا اللہ یہ شخص نبوت کے قابل معلوم ہوتا ہے اتنا صبر ، اتنی برداشت، اتنا علم ۔ اے اللہ اپنی رحمت سے آپ اس کو نبی بنادیجیے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے ان کو نبوت کے لئے منتخب کیا ہوا ہے۔ یہ ہمارے علم میں نبی ہیں۔
جن کے درجے بلند ہوتے ہیں اُن کو اللہ تعالیٰ قوت برداشت عطا کرتا ہے۔ یہ کیا ہے کہ ذرا سا غصہ آیا اور پاگل ہو گئے ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” لیس الشديد بالصرعة إنما الشديد تهْلِكُ نَفْسَهُ عِند الغضب ” پہلوان وہ نہیں ہے جو کسی کو پچھاڑے بلکہ وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس کو قابو میں رکھے ۔
حسن انسانی کا ایک عجیب واقعہ
قرطبی نے نقل کیا ہے کہ عیسی بن موسیٰ ہاشمی جو خلیفہ ابو جعفر منصور کے دربار کے مخصوص لوگوں میں سے تھے انہیں اپنی بیوی سے بہت محبت تھی ۔
ایک روز چاندنی رات میں بیوی کے ساتھ بیٹھے ہوئے بول اُٹھے . انتِ طالق ثلاثاً إِنْ لَمْ تَكونِي أَحْسَنَ مِن القَمرِ یعنی تم پر تین طلاق۔ اگر تم چاند سے زیادہ حسین نہ ہو، یہ کہتے ہی بیوی اُٹھ کر پردہ میں چلی گئی کہ آپ نے مجھے طلاق دیدی ۔
بات ہنسی دل لگی کی تھی مگر طلاق کا حکم یہی ہے کہ کسی طرح بھی طلاق کا صریح لفظ بیوی کو کہدیا جائے تو طلاق ہو جاتی ہے خواہ ہنسی دل لگی ہی میں کیوں نہ کہا جائے ۔
عیسی بن موسی نے رات بڑی بے چینی اور رنج و غم میں گزاری۔
صبح کو خلیفہ وقت ابو جعفر منصور کے پاس حاضر ہوئے اور اپنا قصہ سُنایا اور اپنی پریشانی کا اظہار کیا۔
منصور نے تمام ماجرہ سن کہ شہر کے فقہاء اہل فتوی کو جمع کر کے سوال کیا، سب نے ایک ہی جواب دیا کہ طلاق ہو گئی ہے۔
کیونکہ چاند سے زیادہ حسین ہونے کا کسی انسان کے لئے امکان ہی نہیں۔
مگر ایک عالم جو امام ابو حنیفہ کے شاگردوں میں سے تھے وہ خاموش بیٹھے رہے۔ منصور نے پوچھا کہ آپ کیوں خاموش ہیں ؟
تب یہ بولے اور بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر سورۃ تین تلاوت کی اور فرمایا کہ امیر المومنین اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کا
احسن تقویم میں ہونا بیان فرما دیا ہے، کوئی شے اس سے حسین نہیں ۔ یہ سن کر سب علماء فقہا ء حیرت میں رہ گئے ، کوئی مخالفت نہیں کی اور منصور نے حکم دے دیا کہ طلاق نہیں ہوئی ( معارف القرآن جلد ہشتم )24020