Inspiring Story Hazrat Ilyas In Urdu

Hazrat Ilyas In Urdu
Spread the love

In this blog we Get to know the story of Hazrat Ilyas In Urdu. As our series of Prophet Stories are running these days, So, I hope you will get enough information about Hazrat Ilyas In Urdu.

If you want to read more articles visit the website Q4Quotes.net

So let get started.

Inspiring Story Of Hazrat Ilyas In Urdu (A.S)

حضرت اِلیاسؑ

حضرت الیاس علیہ السلام اللّٰہ تعالی کے نبی ہیں اور موسیٰ علیہ السلام کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں، آپ کا نسب مشہور قول کے مطابق یہ ہے الیاس علیہ السلام بن یا سین بن قحاص بن العیزار بن ہارون۔

بعلبک شہر

آپ کو بتاتے چلیں کہ بعلبک شہر کا نام اس لیے ” بعلبک  ” رکھا گیا ہے کہ اس وقت کے حاکم کا نام ”بک “ تھا۔ اور اس کے معبود کا نام “بعل ” تھا۔ اس نے ایک شہر آباد کیا جس کا نام اس نے اپنے اور اپنے معبود کے نام سے مرکب کر کے بعلبک رکھا۔

نحو کی تمام کتب میں ایسا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ تفسیر خزائن العرفان میں ہے کہ ”بک “ اس جگہ کا نام تھا جہاں انہوں نے اپنے بت ” بعل ” اور کھا ہو اتھا۔ اس طرح بت اور اس کے مندر کے نام سے شہر کا نام ” بعلبک رکھا گیا۔ (واللّٰہ اعلم بالصواب)

آ گے پڑھیئے

کہا جاتا ہے کہ ایک دن صیدون کا بادشاہ تخت شاہی پر بیٹھا اپنے ارکان سلطنت کے ساتھ باتیں کر رہا تھا جو اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھے تھے۔ اچانک ایک دربان نے آکر بادشاہ کو تعظیم دی اور عرض کیا۔

شاہ بعلبک کا قاصد

حضور ! شاہ بعلبک کا قاصد شرف باریابی چاہتا ہے۔ ‏

بادشاہ نے کہا کہ قاصد کو حاضر کیا جائے۔ دربان واپس گیا اور چند لمحوں بعد بعلبک کے بادشاہ کا قاصد دربار میں آکر بادشاہ کے حضور پیش ہوا۔

اس نے ایک خط بادشاہ کی خدمت میں پیش کیا جو بعلبک کے بادشاہ نے بھیجا تھا۔ صیدون کے بادشاہ نے خط پڑھا اور اپنے پاس بیٹھی اپنی بیٹی شہزادی ازابیل کی جانب بڑھا دیا۔

شادی کے متعلق  پیغام

شہزادی نے بھی خط پڑھا جس میں بعلبک کے بادشاہ نے شہزادی سے شادی کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔

شہزادی نے خط کا مطالعہ کیا۔ جب وہ خط پڑھ چکی تو بادشاہ نے پوچھا۔ ”تمھارا کیا خیال ہے شادی کے بارے میں؟“

شہزادی ازابیل نے قدرے شرماتے ہوئے کہا۔ ” ابا حضور ۔ مجھے انکار نہیں ہے۔ لیکن میری ایک شرط ہے۔” بادشاہ نے شہزادی سے اس کی شرط پوچھی تو شہزادی نے کہا۔

میں چاہتی ہوں کہ جب میں بیاہ کر وہاں جاؤں تو شاہی محل میں داخل ہونے سے پہلے بعل دیوتا کے ہیکل میں جا کر اسے سجدہ کروں۔

قاصد نے شہزادی کی شرط سنی تو فورا بولا ۔ ہمارے بادشاہ کو آپ کی ہر شرط منظور ہے ۔

ٹھیک ہے۔ اپنے بادشاہ سے جا کر کہہ دو کہ ہیکل تیار ہو جائے تو بارات لے کر آجائے اور شہزادی کو بیاہ کر لے جائے۔ اس شرط کے علاوہ ہماری اور کوئی شرط نہیں ہے ۔ شہزادی کے باپ نے قاصد سے کہا۔

قاصد نے جھک کر سلام کیا اور واپسی کے لیے دربار سے نکل گیا ۔ اس کے جانے کے بعد تمام درباری اور سلطنت کے ارکان وغیرہ نے بادشاہ اور شہزادی ازابیل کو شہزادی کا رشتہ طے پا جانے کی مبارکباد دی ۔

بعلبک مغربی دمشق کے ایک شہر کا نام ہے۔ صدیوں پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وفات پانے کے بعد قوم بنی اسرائیل مختلف قبائل میں بٹ گئی اور ہر قبیلے نے اپنی اپنی سلطنت بنائی ۔

اس میں سے ایک قبیلہ ملک شام کے علاقے لبنان کے اس حصے میں آکر آباد ہوا جہاں اب بھی اس شہر کے تاریخی کھنڈرات موجود ہیں اور اس زمانے میں اس کا نام بعلبک تھا۔

بعل دیوتا کی پوجا

عرصہ دراز تک جب بنی اسرائیل میں کوئی پیغمبر نہ آیا جو مخلوق خدا کو وعظ ونصیحت کرتا اور انہیں برائیوں سے باز رہنے کی تلقین کرتا تو قوم بنی اسرائیل بتوں اور جھوٹےخداؤں کی پرستش کرنے میں لگ گئی۔

چنانچہ بعلبک کے لوگ بھی بعل دیوتا کی پوجا کرتے تھے۔ چار ہزار سال قبل مسیح میں اس قبیلے کے چار بادشاہ گزرے ہیں ۔ ان میں سے ایک کا نام لطی بعل تھا۔ اس نے شہر میں ایک ہیکل بنایا تھا۔ عرصہ دراز بعد اس ہیکل کو بعل دیوتا کا ہیکل کہا جانے لگا۔ بعل دیوتا کو قربانی پیش کرنے کے لیے دوسرے شہروں میں بھی عظیم الشان قربان گاہیں اور ہیکل بنائے جاتے تھے۔

پوجا کے لیے خاص قسم کے ظروف ( برتن ) تیار کیے جاتے تھے۔ لوگ دیوتا پر خوشبوئیں چڑھاتے ، بچوں اور مویشیوں کی صحت و سلامتی کے لیے قربانیاں دی ‏ جاتی اور جلائی جاتی تھیں۔

بعلبک کے بادشاہ کا نام “بک ” تھا۔ جب اس نے صیدون کے بادشاہ کا شہزادی از ابیل کی شادی کے متعلق مثبت پیغام اور شہزادی کی شرط سنی تو ان احکامات کو پورا کرنے کے لیے احکامات جاری کر دیئے۔

بعل دیوتا کے مندر کی تعمیر

چنانچہ بعل دیوتا کے مندر کی تعمیر و آرائش پورے زور و شور سے شروع ہو گئی ۔ ہر چھوٹا بڑا اس کام میں بخوشی حصہ لے رہا تھا۔ بادشاہ خود بھی تعمیری کام کی دیکھ بھال کرنے روزانہ آتا۔ ہر کام کے لیے اس نے خزانے کا منہ کھول دیا تھا۔

رعایا بھی نقدی اور سونا چاندی نذر کر رہے تھے۔ جب بادشاہ کو ہیکل کے مکمل ہونے کی اطلاع ملی تو وہ نہایت خوش ہوا۔

بادشاہ نے ہیکل کا معائنہ کیا اور حکم دیا کہ ہیکل کو بند کر دیا جائے اور جب اس کی بیوی ازابیل اس میں عبادت کرلے تو پھر عام عوام کے لیے کھولا جائے۔

بادشاہ کی شادی

بادشاہ کی شادی کے موقع پر بعلبک شہر کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔ شہر والوں نے رنگ برنگے لباس پہنے ہوئے تھے۔ ہر طرف خوب جشن کا سماں تھا۔

بادشاہ شہزادی ازابیل کو بیاہ کر واپس آیا تو ہر طرف سے مبارکباد کی آوازیں آنے لگیں ۔ بادشاہ اور ملکہ ہیکل کے بڑے دروازے پر پہنچے تو قفل کو کھول دیا گیا اور وہ دونوں ہیکل میں داخل ہو گئے ۔

ملکہ ازابیل کا بعل دیوتا کے مجسمے کے آگے سجدہ

ملکہ ازابیل بعل دیوتا کے مجسمے کے آگے سجدے میں گرگئی اور کافی دیر تک دعائیں مانگنے کے بعد اٹھی۔ پھر بادشاہ اور ملکہ شاہی محل کی طرف رخصت ہوئے اور ہیکل کے اندر لوگوں کا ہجوم داخل ہو گیا۔

وہ تمام بت کے سامنے سجدے میں گرے ہوئے تھے اور کائنات کا ذرہ ذرہ ان کی بے عقلی اور جہنم کا ایندھن بننے پر افسوس کر رہا تھا کہ وہ احمق لوگ خالق حقیقی کی بجائے اس بت کے آگے جھکے ہوئے تھے جو اپنے اوپر سے ایک مکھی بھی ہٹانے کی طاقت نہ رکھتا تھا۔ یہ گمراہ اور کافر لوگ روزانہ بعل دیوتا کی پوجا کرتے تھے۔

مختلف موسموں میں بعل دیوتا کی پوجا کے لیے عظیم الشان اجتماع ہوتے تھے جس میں بادشاہ اور ملکہ سمیت دوسرے امرائے سلطنت بھی ان اجتماعات میں شرکت کرتے تھے۔

بچوں کی قربانی

موسم بہار میں بھی خصوصی عبادت کا انتظام کیا گیا۔ پوجا کے بعد بعل دیوتا کے قدموں کے سامنے بنی ہوئی مخصوص جگہ پر تیز آگ روشن کی گئی۔ جب شعلے خوب بھڑکنے لگے تو ایک نوجوان اور اس کی بیوی اپنے چند ماہ کے معصوم بچے کے ساتھ آگ کے قریب آئے اور نوجوان نے بیوی کی گود سے بچہ لے کر آگ میں پھینک دیا۔

آگ میں گرتے ہی معصوم بچے کی دلدوز چیخیں ہیکل میں گونجیں اور آگ کے شعلوں نے اسے ہمیشہ کے لیے ختم کر ڈالا۔ بچے کی ماں غم سے نڈھال ہو کر شوہر کے ساتھ لپٹ گئی۔ نوجوان بھی دم بخود کھڑا تھا۔ پھر اس کی بیوی بے ہوش ہو گئی۔ بچہ جل کر راکھ ہو گیا تو ہیکل کے کاہن نے نو جوان سے کہا۔

اے نوجوان ! بعل دیوتا کو ہمیشہ خوش رکھنے کے لیے تو نے عظیم قربانی پیش کی ہے۔ اب وہ تم سے کبھی ناراض نہ ہوگا تم اور تمہاری بیوی دونوں ہمیشہ کے لیے پاک ہو گئے ہو۔ سب لوگ اسے مبارکباد دینے اور ہیکل سے باہر جانے لگے ۔

آخر میں نوجوان نے اپنی بے ہوش بیوی کو اٹھایا اور گھر کی طرف چل دیا۔ گھر آ کر اس نے بیوی کے منہ پر پانی چھٹر کا تو اسے ہوش آ گیا اور وہ بے تابی سے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے بولی ۔ میرا بچہ ۔ میری جان کہاں ہے؟“

پھر اسے بچے کی قربانی کا واقعہ یاد آ گیا اور وہ روتے ہوئے اپنے خاوند کو جھنجھوڑتے ہوئے بولی۔

یہ کیسا مذہب ہے؟ بعل کیسا معبود ہے جو معصوم بچوں کی قربانی مانگتا ہے ؟ اس پر وحشت سی طاری ہوگئی خاوند اسے دلاسا دینے لگا۔ لڑکی کے دماغ پر اپنے لخت جگر کی موت کا ایسا اثر ہوا کہ وہ پاگل ہوکر گلیوں میں ٹھوکریں کھانے لگی۔

ایک بزرگ کا واعظ و نصیحت

ہیکل سے تھوڑی دور ایک چوک میں لوگوں کے بہت بڑے ہجوم میں ایک نورانی شکل کا بوڑھا چبوترے پر کھڑ ا وعظ کر رہا تھا۔

“اے اہلِ بعلبک ! کیا تم حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی شریعت بھول گئے ہو؟ کیا تمہیں یاد نہیں رہا کہ ایک دن مرنے کے بعد تم اپنے خالق کے حضور پیش کیے جاؤ گے اور تم سے تمہارے اعمال کا حساب لیا جائے گا ۔ کیا تم ان امتوں کے واقعات بھول گئے ہو جن کی بداعمالیوں کی وجہ سے ان پر اللّٰہ کا عذاب نازل ہوا اور وہ صفحہ ہستی سے مٹادی گئیں؟ توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے۔ اللّٰہ کے حضور توبہ کرو اور اپنے کفر و شرک سے باز آ جاؤ۔ ‏

پھر اس بزرگ نے پاگل لڑکی کی طرف اشارہ کیا جو مجمع میں نظر آ رہی تھی۔ بوڑھے نے لوگوں سے کہا۔ اس لڑکی کی طرف دیکھو۔ یہ وہی ہے جس کا نو نہال چند روز پہلے بعل دیوتا کو خوش کرنے کے لیے زندہ جلا دیا گیا تھا۔ اگر بعل سچا ہے تو اسے جا کر کہو کہ اس لڑکی کو تندرست کر دے۔

کیا اس نے بچے کی عظیم قربانی اس لیے دی تھی کہ گھر برباد ہو جائے اور یہ پاگل ہو کر ٹھوکریں کھاتی پھرے؟

اتنے میں بادشاہ کے سپاہی آگئے اور انہوں نے بعل دیوتا کے خلاف وعظ کرنے اور لوگوں کو مذہب سے گمراہ کرنے کے جرم میں اسے پکڑ لیا اور اس پر کوڑے برساتے ہوئے وہاں سے لے گئے۔ مگر بوڑھا تشدد کی تاب نہ لا کر راستے میں جاں بحق ہو گیا۔

اس سرزمین پر وہ آخری عالم تھا جو لوگوں کو شریعت موسیٰ علیہ السلام کی تبلیغ کرتا ہوا شہید ہو گیا تھا۔ اس کے بعد وحدانیت کی تبلیغ دینے والا وہاں کوئی نہ تھا۔

حضرت الیاس علیہ السلام کی آ مد

کئی سالوں بعد جب کہ ہر طرف کفر و شرک پھیل رہا تھا، اللّٰہ تعالی نے اپنے ایک نیک بندے کو رسول بنا کر اہل بعلبک کی طرف بھیجا۔

ان کا نام حضرت الیاس علیہ السلام تھا ۔ آپ حضرت ہارون علیہ السلام کی نسل سے تھے۔ آپ نے اعلان نبوت فرمایا تو کفر و شرک کے ایوانوں میں زلزلہ آ گیا۔

بعلبک کے بادشاہ اور ہیکل کے کاہن کو اپنے اقتدار کی موت ہوتی نظر آنے لگی۔ انہوں نے حضرت الیاس علیہ السّلام کی بھر پور مخالفت شروع کردی
مگر آپ ہر جگہ اللّٰہ تعالی کا پیغام سناتے رہے۔ آپ فرماتے۔

حیرت ہے کہ تم خالق کا ئنات کو چھوڑ کر بت کو پوجتے ہو۔ اللّٰہ تم سب کا اور تم سے اگلے تمہارے باپ دادا کا رب ہے ، وہی مستحق عبادت ہے۔

لیکن اہلِ بعلبک نے آپ کی تکذیب کی ۔ وہ لوگ آپ کی تبلیغ و نصیحت سے پریشان تھے۔ انہوں نے آپ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا لیکن ان کی کوئی تدبیر آپ کو تبلیغ حق سے نہ روک سکی۔ قرآن حکیم میں آپ کا ذکر سورۃ الصافات میں اس طرح آیا ہے۔

:ترجمہ

اور بے شک الیاس (علیہ السّلام) رسولوں میں سے ہیں، جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا، کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟ کیا تم بعل ( دیوتا) کو پکارتے ہو اور بہترین پیدا کرنے والے ( خالق و مالک ) اللّٰہ کو چھوڑتے ہو؟ جو تمہارا رب اور تمہارے پہلے باپ دادا کا رب ہے۔

پس انہوں نے اسے جھٹلایا تو وہ یقینا ( عذاب میں ) حاضر کیے جائیں گے۔ مگر اللّٰہ کے مخلص بندے ( عذاب سے بچ جائیں گے ) اور ہم نے پیچھے آنے والوں میں ان کا ذکر خیر چھوڑا ۔ الیاس پر سلام ہو، ہم اسی طرح نیکی کرنے والوں کو بدلہ دیتے ہیں۔ بے شک وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھے ۔ (سورۃ الصافات – آیت 123-132) 

بعلبک کے بادشاہ اور ہیکل کے کاہن نے حضرت الیاس علیہ السلام کی تعلیمات اور نصیحتوں سے نجات پانے کے لیے آپس میں سازشیں کرنا شروع کر دیں تاکہ لوگ ان کی تبلیغ سے متاثر نہ ہو سکیں اور انہیں جھوٹا ثابت کر کے تبلیغ حق سے روکا جا سکے۔

ایک دن بادشاہ نے کا ہن سے پوچھا جس کا نام بروشوس تھا۔ کیوں نہ الیاس سے کوئی معجزہ طلب کیا جائے؟

اگر اس نے معجزہ دکھا دیا تو پھر ؟ کاہن نے خدشے کا اظہار کیا۔ پھر دیکھا جائے گا ۔ بادشاہ نے کہا۔

کا ہن بروشوس نے سوچتے ہوئے کہا۔ ٹھیک ہے۔ جیسے آپ کی مرضی۔

اس پروگرام کے بعد لوگوں کو ایک کھلے میدان میں جمع کیا گیا۔ بادشاہ کا ہن اور امرائے سلطنت کے علاوہ حضرت الیاس علیہ السلام بھی وہاں موجود تھے۔

پھر ایک بیل کو ذبح کر کے اس پر لکڑیاں رکھ دی گئیں۔ بادشاہ نے حضرت الیاس علیہ السلام سے کہا۔

اگر آسمان سے آگ اتر کر اسے جلا دے تو ہم ایمان لے آئیں گے۔

معجزہ

یہ سن کر حضرت الیاس علیہ السلام نے بارگاہ الٰہی میں عرض کی ۔ اے باری تعالی یہ لوگ معجزہ مانگتے ہیں۔ شاید ایمان لے آئیں۔ اپنے کرم سے آسمان سے آگ بھیج جو ان لکڑیوں کو جلا دے۔“

آپ کی دعا ختم ہوتے ہی آسمان سے آگ ظاہر ہوئی اور لکڑیوں کو آگ لگ گئی۔ معجزہ دیکھ کر بادشاہ آپ پر ایمان لے آیا اور اقرار کیا کہ آپ واقعی اللّٰہ کے سچے نبی ہیں۔ اور بھی کئی لوگ حضرت الیاس علیہ السلام پر ایمان لے آئے۔

لیکن کاہن بروشوس ایمان نہ لایا اور اس معجزہ کو جادو اور نظر بندی کہتا رہا۔ وہ بادشاہ کو بہکانے لگا اور حضرت الیاس علیہ السلام کے معجزے کو غلط رنگ دینے لگا۔اس نے بادشاہ کو بعل دیوتا کے غضب اور غصے سے خوفزدہ کرتے ہوئے کہا۔

اگر حضرت الیاس علیہ السلام اللّٰہ کا نبی ہوتا تو اکثریت اس پر ایمان لے آتی ۔ اس کے پیروکاروں کی تعداد تو انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔“ کا ہن اس طرح کی دلیلیں پیش کرتا اور بادشاہ کو دوبارہ بت پرستی کی دعوت دیتا رہا۔

کاہن کی سازشوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ پندرہ دن بعد ہی بادشاہ مرتد ہو گیا۔ اس نے اعلان کر دیا کہ وہ حضرت الیاس علیہ السلام پر ایمان نہیں لایا اور بعل دیوتا کو نہیں چھوڑ سکتا۔

اس کے بعد آپ کی پہلے سے بھی زیادہ مخالفت ہونے لگی۔ کفر و شرک میں غرق ہونے کی وجہ سے اہلِ بعلبک کے کان ، آنکھیں اور دل اندھے ہو گئے اور ان کی دشمنی میں شدت پیدا ہوتی چلی گئی۔ چند سال گزر گئے ۔

عذاب نازل کرنے کی دعا

آخر ایک دن اللّٰہ کے رسول حضرت الیاس علیہ السلام نے اللّٰہ سے اہل بعلبک پر عذاب نازل کرنے کی دعا کی۔

اے اللّٰہ ! اہل بعلبک تیرا نام تک سننے کے روادار نہیں۔ تیری نعمتوں کے ناشکرے ہیں۔ تیرے نبی کو نہیں مانتے۔ ان پر عذاب نازل فرما۔

قحط اور خشک سالی

آپ کی دعا قبول ہوئی ۔ اللّٰہ تعالیٰ نے بعلبک کے نافرمانوں اور کافروں پر خشک سالی کا عذاب نازل کیا۔

آسمان نے پانی برسانا (بارش) بند کر دیا۔ چشموں ، ندی نالوں کا پانی زیر زمین چلا گیا۔ فصلیں ویران ہو گئیں ، درخت سوکھ کر ٹنڈ منڈ ہو گئے اور ہر جگہ دھول اڑنے لگی۔ لیکن لوگ سیدھے راستے پر آنے کی بجائے بعل دیوتا کے آگے جا کر گڑ گڑاتے اور بارش کے لیے دعائیں مانگتے تھے لیکن وہ بے جان مجسمہ کیا کر سکتا تھا؟

حضرت الیاس علیہ السلام ان کو سمجھاتے اور فرماتے ۔ “اے لوگو! کیوں خود کو ہلاکت میں ڈالتے ہو۔ اس راستے پر کیوں نہیں چلتے جس کی میں نشاندہی کرتا ہوں۔“

اہل بعلبک راه راست پر نہ آئے اور بھوک پیاس کی شدت سے مرتے رہے۔ تین سال اس قحط میں گزر گئے ۔

ایک دن لوگوں کو خیال آیا کہ یہ قحط اور خشک سالی حضرت الیاس علیہ السلام کی بددعا کا نتیجہ ہے، کیوں نہ اسے ہلاک ‏کر دیا جائے۔ (نعوذباللہ)

پھر وہ لوگ آپ کو تلاش کرنے لگے۔ لیکن اللّٰہ تعالیٰ کے کرم سے کسی کی کوئی چال کامیاب نہ ہوئی کیونکہ اپنے رسولوں کا اللّٰہ تعالیٰ خود محافظ و نگہبان ہوتا ہے۔

ایک دن حضرت الیاس علیہ السلام خود ہی بادشاہ اخی اب کے پاس تشریف لے گئے اور اس کی پریشانی دیکھ کر کہا۔ اخی اب ! جسے تم پوجتے ہوا سے کہوناں! کہ تم کو پانی دے، قحط سے نجات دے ۔ نہیں تو تم میرے اللّٰہ تعالیٰ پر ایمان لاؤ ، وہ تمہیں پانی دے گا۔

بادشاہ اخی اب نے کہا ۔ میں بھل دیوتا سے پانی مانگوں گا ۔“

میں منتظر رہوں گا کہ تم کب میرے اللّٰہ سے پانی مانگنے آتے ہو ۔ حضرت الیاس علیہ السلام نے فرمایا۔

اگلے دن بادشاہ کے ساتھ بہت سے لوگ ہرکل گئے اور گڑگڑا کر دیوتا سے بارش مانگی۔ لیکن بعل دیوتا کے بت نے کوئی جواب نہ دیا اور وہاں سے واپس چل دیے۔

کاہن نے انہیں یقین دلایا کہ بادشاہ اور دوسرے لوگوں کی دعا رائیگاں نہیں جائے گی اور بارش ضرور ہوگی۔ لیکن بارش نہ ہوئی ۔

تنگ آکر بادشاہ خود ہی ایک دن حضرت الیاس علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ آپ نے فرمایا۔

کہو۔ بھل نے تمہاری حالت پر رحم نہیں کھایا ؟ وہ بے جان مجسمہ کیا دے سکتا ہے جس کے لیے تم اپنی آخرت خراب کرتے ہو۔

بادشاہ نے کہا۔ “تم اپنے اللّٰہ سے بارش کے لیے دعا کرو۔ بارش کے پہلے قطرے کے ساتھ ہی ہم ایمان لے آئیں گے۔”

بادشاہ اور اس کے ساتھیوں نے قسمیں کھا کر یقین دلایا ۔ تب آپ نے اللّٰہ تعالی سے بارش کی دعا کی۔

دعا کے بعد فورا ہی آسمان سیاہ بادلوں سے ڈھک گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے موسلا دھار بارش ہونے لگی۔ ہر طرف جل تھل ہو گیا اور گھاس و غلہ اگنے لگا۔ لیکن وہ لوگ پھر منکر ہو گئے اور اپنے کفر پر اڑے رہے۔ اس کے با وجود حضرت الیاس علیہ السلام تبلیغ حق کرتے رہے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب کافروں نے آپ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تو آپ چھپ گئے ۔ آپ اپنی قوم کے بادشاہ سے دس سال تک ایک غار میں چھپے رہے جو ” الدم ” پہاڑ کے نیچے تھا۔ حتی کہ اللّٰہ تعالی نے بادشاہ کو ہلاک کر دیا اور اس کی جگہ کسی اور کو بادشاہ بنا دیا ۔

تب حضرت الیاس علیہ السلام اس بادشاہ کے پاس آئے اور اسے توحید کی دعوت دی۔ وہ بادشاہ مسلمان ہو گیا ۔ اس کی قوم کے بہت سے لوگ بھی مسلمان ہو گئے ۔ صرف دس ہزار افراد مسلمان نہ ہوئے تو بادشاہ نے ان سب کو قتل کرادیا۔ (کعب الاحبار )

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت الیاس علیہ السلام اپنی قوم سے بھاگ کر پہاڑ کے غار میں بیس یا چالیس راتیں چھپے رہے اور معجزانہ طور پر کوے ان کے پاس ان کا کھانا لاتے تھے۔ ( ابن ابی الدنیا )

اسلامی تفاسیر میں حضرت الیاس علیہ السلام کے بارے میں کئی واقعات موجود ہیں۔ ان میں چند درج ذیل ہیں۔

اپنی روح قبض کرنے کی دعا

جب حضرت الیاس علیہ السلام کی قوم نے آپ کو جھٹلایا اور اذیت دی تو انہوں نے اللّٰہ سے اپنی روح قبض کرنے کی دعا کی ۔ اس کے نتیجے میں آپ کے پاس ایک جانور آیا۔ اس کا رنگ آگ جیسا تھا۔ آپ اس پر سوار ہوئے ۔

اللّٰہ نے آپ کو پردہ دیا اور نورانی لباس پہنا دیا۔ اور ان سے کھانے اور پینے کی لذت ختم کردی ( یعنی آپ کو کھانے پینے کی حاجت و خواہش نہ رہی ) اس طرح آپ ملکی بھی ہیں اور بشری بھی ، ارضی بھی ہیں اور سماوی بھی اور آپ نے الیسع بن اخطوب کو اپنے بعد تبلیغ کی ذمہ داری سنبھالنے کی وصیت فرمائی ۔ ( وہب بن منبہ )

حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں ہم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ ہم ایک جگہ ٹھہرے تو اچانک ایک دمی کہہ رہا تھا

اے اللّٰہ مجھے محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی مرحومه مغفوره امت میں سے کر دے۔

میں نے دیکھا تو وادی میں تین سو ہاتھ سے زیادہ لمبے قد کا آدمی کھڑا تھا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ تو کون ہے؟

میں نے بتایا کہ میں رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا خادم انس بن مالک ہوں ۔ اس نے پوچھا کہ وہ کہاں ہیں؟

میں نے کہا کہ یہاں قریب ہی ہیں اور آپ کا کلام سن رہے ہیں۔ اس آدمی نے کہا۔ ان کے پاس جاؤ اور میری طرف سے ان کو سلام کہو۔ اور کہنا کہ تمہارا بھائی الیاس تم پر سلام کہتا ہے۔

میں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کو اطلاع دی تو آپ ان کے پاس آئے۔ ان سے ملاقات کی اور ان سے بغل گیر ہوئے ، سلام کہا اور دونوں بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔

اس آدمی نے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو بتایا کہ میں سال میں صرف ایک مرتبہ کھانا کھاتا ہوں اور وہ دن آج ہی ہے لہٰذا آؤ دونوں مل کر کھاتے ہیں۔ پھر آسمان سے دستر خوان نازل ہوا۔ اس میں روٹی مچھلی اور اجوائن تھی ۔ پس ان دونوں نے کھانا کھایا اور مجھے بھی کھلایا۔ پھر ہم نے عصر کی نماز ادا کی۔ پھر وہ ہم سے رخصت ہو گئے ۔ میں نے ان کو دیکھا کہ وہ بادلوں سے گزر کر آسمان کی طرف جارہے ہیں ۔“

حضرت ثابت رضی اللّٰہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم مصعب بن الزبیر کے ہمراہ کوفہ کے قریب ایک جگہ پر تھے۔ میں وہاں ایک باغ میں دو رکعت نماز ادا کرنے کے لیے داخل ہوا۔ میں نے سورۃ الغافر شروع کی۔

اچانک میرے پیچھے سفید خچر پر سوار ایک آدمی آیا۔ اس نے یمنی لباس پہنا ہوا تھا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ جب تو ” غافر الذنب ” کہے تو کہنا ، اے توبہ قبول کرنے والے ! میری توبہ قبول کر۔ جب تو ” شدید العقاب‘ کہے تو کہنا کہ اے سخت سزا دینے والے ! مجھے سزا نہ دینا۔ جب تو ” ذی القول ” کہے تو کہنا کہ اے کرم کرنے والے ! مجھ پر اپنی رحمت کے ساتھ کرم کر۔

جب میں نے مڑ کر دیکھا تو وہاں کوئی نہ تھا۔ میں باہر نکلا اور میں نے لوگوں سے پوچھا کہ ابھی ابھی تمھارے پاس سے سفید خچر پر سوار یمنی لباس پہنے ہوئے کوئی آدمی گزرا ہے؟

انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے پاس سے کوئی شخص نہیں گزرا۔

لوگوں کا خیال ہے کہ وہ حضرت الیاس علیہ السلام ہی تھے ۔ واللہ اعلم باالصواب
( ابن ابی الدنیا )

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *