In this Blog I am sharing Story and knowledge about Hazrat Sulaiman In Urdu. One of the most venerated Prophets and king in Islamic history is Hazrat Sulaiman (علیہ السلام)also referred to as Solomon in the Judeo-Christian tradition.
He presided over a large and affluent empire and was well-known for his unmatched intelligence and ability to speak with animals and jinn.
His leadership was characterized by a strong sense of justice, fairness, and commitment to Allah Almighty.
In addition, Sulaiman ( علیہ السلام) is renowned for building the majestic Temple of Solomon and for his proverbs and parables that teach moral and ethical teachings.
For More Stories Of Prophets u can visit website q4quotes.net
Lets explore some of the most Inspiring Stories Of Hazrat Sulaiman In Urdu
حضرت سلیمان علیہ السلام
حضرت سلیمان علیہ السلام، جو یہودی-مسیحی روایت میں سلیمان کے نام سے مشہور ہیں، اسلامی تاریخ میں ایک قابل احترام نبی اور بادشاہ ہیں۔ اپنی بے مثال حکمت اور جانوروں اور جنوں کے ساتھ بات چیت کرنے کی صلاحیت کے لیے مشہور، حضرت سُلیمانؑ نے ایک وسیع اور خوشحال سلطنت پر حکومت کی۔
حضرت سُلیمانؑ اللہ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ آپ بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے تھے اور اپنے والد حضرت داؤد علیہ السلام کے بعد عنان حکومت سنبھال کر بنی اسرائیل کے بادشاہ بنے ۔
آپ اللّہ کے بھیجے پیغمبر اور انصاف پرور بادشاہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ہفت اقلیم کی بادشاہت عطا فرمائی اور وہ صرف انسانوں کے ہی نہیں بلکہ تمام مخلوقات کے بادشاہ بھی تھے۔ چرند پرند اور جنات وغیرہ سب حضرت سُلیمانؑ کے تابع و فرمان تھے۔
اللّہ تعالی نے حضرت سُلیمانؑ کو جتنا وسیع و عریض ملک عطا کیا تھا ایسا کسی جن و بشر کو نہیں دیا۔ اس کے باوجود حضرت سُلیمانؑ میں ذرہ بھر بھی تکبر نہ تھا۔
وہ اپنے اخراجات کے لیے شاہی خزانے سے ایک پیسہ تک نہ لیتے اور اپنے ہاتھ سے زنبیل سی کر اسے فروخت کر کے گزر اوقات کیا کرتے تھے۔ کھانے کے لیے وہ اپنے ہاتھوں سے جو کو پیس کر آٹا بناتے اور اس کی روٹی پکا کر کھاتے۔ آپ اکثر روزہ رکھتے اور ہر شام بیت المقدس میں جا کر غریبوں اور روزہ داروں کے ساتھ روزہ افطار کرتے تھے۔
تخت سلیمانی
بادشاہ بننے کے بعد حضرت سُلیمانؑ نے ایک نہایت عالیشان اور پر تکلف مکان بنایا جس کا رقبہ 30 کوس تھا۔ اس مکان کو سونے چاندی کی اینٹوں سے بنایا گیا جس کی دیواروں اور چھتوں پر یا قوت اور زمرد جڑے ہوئے تھے۔
پھر اس مکان کے اندر ایک شاندار تخت بنوایا جس کی لمبائی تین کوس تھی۔ سارا تخت ہاتھی دانت سے بنایا گیا تھا جو لعل، فیروزہ اور زمرد جیسے پتھروں سے مرصع تھا اور اس کے چاروں طرف سونے کی اینٹیں لگی ہوئی تھیں۔
تخت کے چاروں کونوں پر ایسے درخت تھے جن کی ڈالیاں سونے کی تھیں اور ہر ڈال پر ایک طوطی اور طاؤس بنا کر ان کے پیٹ کے اندر مشک بھر دیا گیا تھا۔ ان درختوں کے خوشے انگوروں کی طرح تھے۔
اس تخت کے نیچے اور دائیں بائیں ایک ہزار سونے کی کرسیاں لگائی گئی تھیں جن پر لوگ بیٹھتے تھے۔ ان کے پیچھے جنوں اور انسانوں میں سے غلام کھڑے کیے گئے تھے۔ یہ تخت جنات نے بنایا تھا جو آپ کی رعایا تھے۔
جب حضرت سلیمان علیہ السلام تاج شاہی سر پر رکھ کر اس عظیم الشان تخت پر قدم رکھتے تو ان کی ہیبت سے تخت اس وقت حرکت کرنے لگتا اور طوطی وطاؤس بھی اللّہ کے حکم سے اپنے پر پھیلا دیتے تھے جن سے مشک وغیرہ کی خوشبو نکلتی۔
اللّہ تعالی کے فضل سے حضرت سُلیمانؑ ہر جانور کی بولی اچھی طرح سمجھتے تھے۔ جب آپ شاہی تاج سر پر رکھتے تو تمام پرندے تخت کے اوپر معلق ہو کر آپ کے سر پر سایہ کرتے۔
جس مکان میں تخت سلیمانی تھا اس میں کئی محرابیں میں تھیں جہاں عابد وزاہد لوگ بیٹھ کر عبادات کیا کرتے تھے۔ حضرت سُلیمانؑ ہمیشہ اللّہ تعالی کی ان نعمتوں کا شکر ادا کرتے اور ہر وقت اللہ تعالی سے مناجات کرتے رہتے تھے۔ آپ پورے عجز وانکسار کے ساتھ اللّہ کے حضور یہ دعا کرتے تھے۔
یا الہیٰ میں درویشوں کے ساتھ بھی شامل ہوں اور بادشاہوں کے ساتھ بھی۔ صرف یہی نہیں بلکہ میں پیغمبروں میں سے بھی ایک پیغمبر ہوں۔ اے میرے مالک میں تیری نعمتوں کا کہاں تک شکر ادا کروں۔“
اللہ تعالی نے ہوا کو حضرت سلیمان علیہ السلام کے تابع کر دیا تھا۔ جب آپ اپنے عظیم الشان تخت پر بیٹھ کر تخت کو چلنے کا حکم دیتے تھے تو تخت اتنی تیز رفتاری سے چلتا کہ آپ ہزاروں کوس کا فاصلہ چند منٹ میں طے کر آتے ۔
آپ صبح کو ایک شہر اور شام کو دوسرے شہر میں ہوتے تھے۔ آپ کے باورچی خانہ کے لیے جنات نے بڑی بڑی پتھر کی دیگیں بنائی ہوئی تھیں جنہیں بادل پانی سے بھر دیتا ۔ ان دیگوں میں روزانہ کئی ہزار اونٹ اور کئی ہزار گوسفند پکتے تھے اور مخلوقِ خدا صبح سے شام تک آپ کے لنگر خانہ سے کھاتی پیتی تھی۔
چیونٹیوں کی بستی
ایک دن حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے عظیم الشان شاہی تخت پر بیٹھے ہوا میں سفرکر رہے تھے۔ تخت کے دوسرے حصوں میں آپ کے ایک ہزار ملازم اور سلطنت کے عہدے دار بھی اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھے تھے جن میں وزیر اعظم برخیا بھی شامل تھا۔
تمام جن تخت کے گرد ادب سے کھڑے تھے اور فضا میں اڑنے والے پرندے تخت پر اپنے پروں سے سایہ کیے آ رہے تھے۔ سفر کے دوران حضرت سُلیمانؑ کے کانوں میں فرشتوں کی آواز پڑی۔ فرشتے اللّٰہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہوئے کہہ رہے تھے۔
“اے رب ! تو نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو جیسا ملک اور حشم دیا ہے ایسا کسی اور جن و بشر میں سے کسی کو نہیں دیا۔“ اس پر اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا۔ “اے فرشتو! میں نے سلیمان علیہ السلام کو ہفت اقلیم کی بادشاہی عنایت کی ۔ اور اس کو نبوت سے سرفراز کیا ہے۔ لیکن سلیمان میں غرور و تکبر بالکل نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو میں ان کو ہوا پر لے جا کر زمین پر ڈال دیتا اور پھر ان کو نیست و نابود کر دیتا ۔
جب حضرت سُلیمانؑ نے یہ کلام سنا تو فورا اللّٰہ کے حضور سجدے میں گر گئے اور اس کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کرنے لگے ۔ ہوا نے ان کے تخت کو زمین پر اتارا جہاں چیونٹیوں کی بستی تھی۔ تخت سلیمانی کو دیکھ کر چیونٹیاں خوفزدہ ہو گئیں۔ اس واقعہ کا تذکرہ قرآن پاک میں اس طرح ہے۔
ترجمه: یہاں تک کہ جب پہنچے ( سلیمان ) چیونٹیوں کے میدان پر ( تو ) ایک چیونٹی نے کہاکہ اے چیونٹیو! گھس جاؤ اپنے گھروں میں تا کہ تم کو نہ پیس ڈالے سلیمان اور اس کا لشکر اور پھر انکو خبر بھی نہ ہو ۔ (۱۸)
یہ چیونٹی اپنی قوم کی سردار یعنی شاہ مور تھی ۔ اس کی بات سن کر حضرت سُلیمانؑ مسکرائے اور انہوں نے شاہ مور کو اپنی ہتھیلی پر رکھ کر پوچھا۔ اے شاہ مور تم نے اپنے لشکر سے یہ کیوں کہا کہ سلیمان آتا ہے اور تم اپنےاپنے غاروں میں گھس جاؤ تم نے اس سے پہلے میرا کیا ظلم دیکھا ہے ؟
شاہ مور نے کہا۔ “اے نبی ہم نے آپ کا یا آپ کے لشکر کا پہلے کوئی ظلم نہیں دیکھا مگر ہم نے حفظ ماتقدم کے طور پر ایسا کیا ہے کہ کہیں آپ کے گھوڑوں کی ٹاپوں تلے چیونٹیاں نہ روندی جائیں ۔
حضرت سُلیمانؑ نے فرمایا ” کیا تم اپنی چیونٹیوں پر ایسی ہی شفقتیں کیا کرتے ہو؟
شاہ مور نے کہا۔ جی ہاں ۔ چونکہ اللّہ تعالیٰ نے مجھے ان کا بادشاہ بنایا ہے اس لیے میرا فرض ہے کہ میں ان کی سلامتی کا خیال رکھوں ۔
تمہارے ساتھ کتنی چیونٹیاں رہتی ہیں؟“ حضرت سُلیمانؑ نے پوچھا۔ شاہ مور نے بتایا کہ چالیس ہزار ۔ اس پر حضرت سُلیمانؑ نے پوچھا۔ ”تمہاری بادشاہی بہتر ہے یا میری بادشاہت ؟
چیونٹیوں کے سردار نے کہا۔ میری بادشاہی بہتر ہے۔ کیونکہ تمہارے تخت کو ہوا اٹھاتی ہے، تم اس پر بیٹھتے ہو، یہ کتنا بڑا تکلف ہے۔
حضرت سُلیمانؑ نے مسکرا کر پوچھا۔ تمہیں یہ عقل کس نے سکھائی ہے؟
اے سلیمان علیہ السلام ! جس اللہ نے تمہیں عقل عطا فرمائی اس نے ہمیں بھی عقل سے نوازا ہے ۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں آپ سے چند مسائل پوچھوں؟ شاہ مور نے جواب دیا۔
پوچھو۔ کیا پوچھنا ہے تمہیں ؟ حضرت سُلیمانؑ نے کہا۔
شاہ مور نے کہا۔ “اے سلیمان علیہ السلام ! تم نے اللہ تعالی سے سوال کیا تھا ( ترجمہ ) کہا۔ اے پروردگار مغفرت کر میری اور بخش مجھ کو ایسا ملک کہ نہ لائق ہو کسی کو میرے پیچھے۔ تو ہے سب سے بخشنے والا ۔ اے سلیمان تمہارے اس سوال سے حسد کی بو آتی ہے جبکہ حسد کرنا پیغمبروں کی شان کے خلاف ہے۔ تمہیں یہ بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ خداوند قدوس سارے جہاں کا مالک ہے، وہ جسے چاہے بادشاہی دے اور جسے چاہے نہ دے۔
تو بڑی دانا اور عقل مند ہے۔ حضرت سُلیمانؑ نے کہا۔
شاہ مور نے کہا ۔ اے اللّٰہ کے نبی تم بھی اپنی رعایا کی نگرانی کرو اور اپنے عدل وانصاف سے رعیت کو خوش رکھو۔ ظالم سے مظلوم کا حق دلواؤ۔ میں تو بیچاری ضعیفہ اور مسکین ہوں (پھر بھی) اپنی رعایا کی ہر روز خبر لیتی ہوں اور ان کا بار اٹھاتی ہوں تا کہ کوئی بھی کسی پر ظلم نہ کر سکے۔
شاہ مور کی باتیں سن کر حضرت سُلیمانؑ نے سجدے میں گر کر کہا۔ “اے پروردگار ! تیری قدرت بے انتہا ہے اور تو ہی بے شک عظمت و بزرگی کے لائق ہے ۔ قرآن حکیم کی سورۃ سباء میں ارشاد باری تعالی ہے۔
ترجمہ
اور جنوں میں سے وہ تھے جو اس (سلیمان) کے سامنے خدمت انجام دیتے تھے، اس کے پروردگار کے حکم سے اور جو کوئی ان میں سے ہمارے حکم کے خلاف کجروی کرے ہم اسے دوزخ کا عذاب چکھائیں گے۔
وہ اس کے لیے بناتے تھے جو کچھ وہ چاہتا تھا، قلعوں کی تعمیر ہتھیار اور تصاویر اور بڑے بڑے لگن جو حوضوں کی مانند تھے اور بڑی بڑی دیگیں جو اپنی بڑائی کی وجہ سے ایک جگہ جمی رہیں ۔ اے آل داؤد شکر گزاری کے کام کرو اور میرے بندوں میں سے بہت کم شکر گزار ہیں۔ ” ( ۱۲۰ تا ۱۳)
سلیمانی انگوٹھی
اللّٰہ تعالی نے حضرت سُلیمانؑ کے لیے جنوں شیاطین اور جانوروں کو مسخر کر دیا تھا اور وہ سب حضرت سُلیمانؑ کے تابع تھے۔ ان کے پاس ایک ایسی انگوٹھی تھی جس پر اسم اعظم کندہ تھا
جس کی تاثیر یہ تھی کہ انسان و حیوان، چرند پرند ، جن و پری سب ان کے پاس کھنچے چلے آتے تھے۔
جب حضرت سُلیمانؑ کی سلطنت بہت وسیع ہوگئی ، انہی دنوں کا واقعہ ہے کہ ایک روز معمول کے مطابق آپ قضائے حاجت کے لیے باہر تشریف لے گئے اور اپنی انگوٹھی ایک لونڈی کے حوالے کر گئے۔
آپ کے جاتے ہی دیوؤں کے ملک کا بادشاہ جسکا نام حمود لیس تھا، وہ آیا اور اس نے لونڈی سے سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی حاصل کر لی اور تخت سلیمانی پر جا بیٹھا
اسی انگوٹھی کی وجہ سے حضرت سُلیمانؑ کا کاروبار سلطنت چل رہا تھا چنانچہ انگوٹھی پاس نہ ہونے کی وجہ سے حضرت سلیمان علیہ السلام سے سب کچھ چھن گیا۔ وہ انگوٹھی دوبارہ پانے کے لیے جنگل کی طرف نکل گئے ۔
چلتے چلتے وہ ایک روز بنی اسرائیل کے دروازے پر پہنچے۔ آپ بہت بھو کے پیاسے تھے۔ آپ نے دروازے پر دستک دی تو اندر سے ایک عورت نے پوچھا۔ ” کون ہے؟“
حضرت سُلیمانؑ نے جواب دیا کہ میں ہوں جس کی دعوت کرنا لازمی ہے۔
عورت نے کہا میرا شوہر گھر سے باہر ہے ۔ اس کی غیر موجودگی میں، میں غیر محرم کی دعوت نہیں کر سکتی۔ البتہ میرا باغ ہے وہاں چلا جا جب میرا شوہر آے گا تو تمہاری مراد پوری کر دی جائے گی ۔
چنانچہ حضرت سُلیمانؑ اس کے باغ میں گئے اور پانی پی کر سو گئے۔ سونے کے دوران باغ میں کہیں سے ایک ناگ نکلا اور آپ کے قریب بیٹھ کر پہرہ دینے لگا۔ اس خاتون کا شوہر باغ میں آیا تو یہ منظر دیکھ کر پریشان ہو گیا۔ اس نے بیوی سے پوچھا کہ یہ آدمی کون ہے اور یہاں کیوں سو رہا ہے۔ بیوی نے بتایا۔ یہ مسافر ہے اور آپ کے انتظار میں ٹھہرا ہوا ہے ۔
حضرت سُلیمانؑ بیدار ہوئے تو ناگ وہاں سے ہٹ گیا۔ عورت کا شوہر آپ سے بے حد متاثر ہوا اور اس نے آپ کو اپنی بیٹی کا رشتہ دینے کی پیش کش کی جو آپ نے قبول کر لی ۔ آپ نے اس شخص کی بیٹی سے شادی کر لی۔
اور تین روز وہاں قیام کرنے کے بعد اپنی بیوی کو ساتھ لے کر وہاں سے روانہ ہو گئے ۔ ادھر آپ کے تخت پر حمود لیس قابض تھا جو جنات میں سے تھا۔ وہ حضرت سُلیمانؑ کا ہم شکل بن کر تخت پر بیٹھا تھا۔
مگر جلد ہی اس کی حرکتوں سے لوگوں کو شک ہو گیا کہ وہ حضرت سُلیمانؑ نہیں ہے چنانچہ انہوں نے اپنا شک دور کرنے کے لیے یہ تدبیر کی کہ حمود لیس کو تورات پڑھ کر سنانے کے لیے کہا۔
حمود لیس تورات نہ پڑھ سکا جس پر اور لوگوں نے تورات پڑھنا شروع کر دی ۔ حمود لیس گھبرا گیا۔ وہ کلام الہیٰ سن کر وہاں نہ ٹھہر سکا اور فورا غائب ہو گیا۔ اس نے حضرت سُلیمانؑ کی انگوٹھی دریا میں پھینک دی جسے ایک مچھلی نگل گئی۔
حضرت سُلیمانؑ ایک روز دریا پر گئے تو وہاں چند مچھیرے مچھلیاں پکڑ رہے تھے۔ آپ نے دیکھا تو آپ بھی ایک آدمی کے ساتھ مل کر مچھلیاں پکڑنے لگے ۔
قدرت خداوندی سے ان کے جال میں وہی مچھلی پھنس گئی جس نے آپ کی انگوٹھی نگلی تھی ۔ آپ نے اس آدمی سے وہ مچھلی پکانے کے لیے خریدی اور گھر لا کر اپنی بیوی کو دے دی ۔
بیوی سے فرمایا کہ اس مچھلی کو آج شام پکا لینا۔ آپ کو بالکل معلوم نہ تھا کہ آپ کی انگوٹھی کسی مچھلی کے پیٹ میں ہے۔ جب آپ کی بیوی نے مچھلی کا پیٹ چاک کیا تو اس سے انگوٹھی برآمد ہوئی۔ بیوی نے وہ انگوٹھی آپ کو دکھائی تو آپ نے انگوٹھی کو فوراً پہچان کر انگلی میں پہن لیا ۔
انگوٹھی حاصل ہوتے ہی آپ کا تخت و تاج آپ کو واپس مل گیا۔ آپ نے اسے اللہ تعالیٰ کا ایک امتحان سمجھا جس میں آپ پورے اترے اور پہلے کی طرح حکومت کرنے لگے۔
دعوتِ مخلوقات
ایک دن آپ کو لوگوں کی دعوت کرنے کا خیال آیا ۔ آپ نے اللّٰہ تعالیٰ سے عرض کی کہ میں تمام مخلوق الہیٰ کی دعوت کرنا چاہتاہوں۔ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا ” اے سلیمان مخلوقات کو روزی دینے والی ذات تو میں ہوں ۔ تم تو میری ساری مخلوقات کو ایک وقت کا کھانا بھی نہیں کھلا سکو گے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے دوبارہ عرض کی۔ اے پروردگار جو کچھ بھی میرے پاس ہے وہ بھی تو تیرا ہی عطا کیا ہوا ہے۔ اس سے میں تیری مخلوق کی دعوت کرنا چاہتا ہوں ۔ ان کے اصرار پر اللّٰہ تعالیٰ نے ان کی خواہش قبول کر کے انہیں اجازت عطا کر دی۔
اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر کے حضرت سُلیمانؑ نے ایک بہت وسیع و عریض جنگل میں مخلوق خدا کی دعوت کا اہتمام کیا ۔ انہوں نے جنات کو جنگل صاف کرنے اور وہاں صاف و شفاف دریاں بچھانے اور مشرق سے مغرب تک کی تمام اشیائے خوردنی لا کر جمع کرنے کا حکم دیا۔
آپ نے ہوا کو حکم دیا کہ وہ فرش زمین کو اٹھا کر فضا میں معلق کر دو تاکہ زمین پر بسنے والی تمام مخلوق اس دعوت کا نظارہ کر سکے
آپ کے حکم کی تعمیل میں سنگ خارا کی نہایت وسیع سات لاکھ دیگوں میں کھانا پکایا گیا۔ جب کھانا پک کر دعوت کے لیے تیار ہو گیا تو ایک مچھلی نے آکر حضرت سُلیمانؑ کی خدمت میں عرض کی۔
یا حضرت ! مجھے بھی آج حکم ہوا ہے کہ آپ کی دعوت سے کھاؤں۔ اس لیے مجھے کھانا کھلایئے ۔
یہ سب کھانا اسی دعوت کے لیے ہے۔ اگر تو صبر نہیں کر سکتی تو بسم اللّٰہ پڑھ لے اور جو کچھ تیار ہے اس سے کھانا شروع کر دے ۔ ” حضرت سُلیمانؑ نے کہا۔
آپ کی اجازت ملتے ہی مچھلی نے کھانا شروع کر دیا اور جتنا بھی کھانا تیار تھا تمام کھا گئی۔ پھر بولی ۔ یا حضرت! ابھی میرا پیٹ نہیں بھرا۔
اے مچھلی تو تمام مخلوقات کا کھانا اکیلی کھاگئی ہے اور ابھی بھی تیرا پیٹ نہیں بھرا؟ حضرت سُلیمانؑ نے حیران ہو کر کہا۔
یہ تو میرا صرف ایک ہی نوالا تھا حضرت! مچھلی نے جواب دیا ۔ میں تو روزانہ ایسے تین نوالے کھاتی ہوں ۔“ پھر مچھلی نے شکوہ کیا ۔ حضرت! اگر آپ کے پاس دعوت کا پورا سامان نہیں تھا تو آپ نے تمام مخلوقات خدا کی دعوت کرنے کا اعلان کیوں کیا ؟
یہ سن کر حضرت سلیمان علیہ السلام فوراً اللّٰہ کے حضور جھک گئے اور اللّٰہ تعالی سے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ تمام مخلوقات کی دعوت کرنے کی ان کی آرزو محض خواب تھی کیونکہ تمام مخلوق کو روزی دینا صرف تیرا ہی کام ہے۔
ملکہِ بلقیس اور ہُد ہُد
حضرت سلیمان علیہ السلام کے وضو کا پانی لانے پر ایک پرندہ ہُد ہُد مامور تھا۔ ہُد ہُد حضرت سلیمان کا خاص خدمت گار تھا اور وہ حضرت سُلیمانؑ کے وضو کے لیے جنگل میں سے پانی تلاش کر کے لاتا تھا۔
ایک دن حضرت سُلیمانؑ اپنے شاہی تخت پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے سامنے رعایا بڑے ادب سے دست بستہ کھڑی تھی۔ دربار میں مکمل خاموشی تھی۔ جن و پری، چرند و پرند میں سے کسی کی جرات نہ تھی کہ وہ منہ سے ذرا سی بھی آواز نکالیں۔ اچانک حضرت سُلیمانؑ نے چاروں طرف دیکھ کر کہا۔
وہ مجھے نظر نہیں آرہا یا یا پھر دربار سے غیر حاضر ہے؟ میں اپنے سامنے ہُد ہُد کو موجود نہیں پا رہا۔ ایسا تو نہیں کہ پرندوں کی کثرت کے سبب وہ مجھے نظر نہیں آ رہا ؟
سب نے ادھر ادھر دیکھا مگر ہُد ہُد کہیں دکھائی نہ دیا۔ حضرت سُلیمانؑ نے کہا۔ معلوم ہوتا ہے ہُد ہُد دربار سے غیر حاضر ہے ۔ میں اسے اس کوتاہی کی سخت سزا دوں گا بلکہ ذبح کر ڈالوں گا جب تک کہ وہ اپنی غیر حاضری کا کوئی معقول جواز پیش نہ کرے۔”
ان کا لہجہ محسوس کر کے ہر طرف سراسیمگی پھیل گئی اور سب کو ہُد ہُد کے متعلق تشویش ہونے لگی۔
ہُد ہُد کا خیال تھا کہ وہ حضرت سُلیمانؑ کے وضو کے وقت تک دربار پہنچ جائے گا۔ اس نے سوچا کہ کیوں نہ آج میں بلند پرواز کر کے دنیا کا نظارہ کروں ۔
چنانچہ اس نے اونچی اڑان کی اور اسے ملکہ سبا بلقیس کا باغ دکھائی دیا۔ وہ باغ میں اتر اتو وہاں اپنے ایک ہم جنس کو پایا۔ ہم جنس ہُد ہُد نے ہُد ہُد سلیمانی سے پوچھا۔ ” تم کہاں سے آئے ہو ؟
میں ملک شام سے حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس سے آیا ہوں ۔ ہُد ہُد سلیمانی نے بتایا۔ حضرت سُلیمانؑ کون ہیں؟ ہم جنس ہُد ہُد نے سوال کیا۔
ہُد ہُد سلیمانی نے جواب دیا ۔ وہ اللّٰہ کے پیغمبر اور تمام انسانوں ، جنوں اور شیاطین کے بادشاہ ہیں، تمام چرند پرند ان کے مطیع اور تابع فرمان ہیں۔ لیکن تم کہاں کے رہنے والے ہو …؟
ہُد ہُد بولا ۔ ” میں اسی شہر کا باسی ہوں ۔ اس ملک پر ملکہ بلقیس حکمران ہے۔ اگرچہ تمہارے بادشاہ کا ملک بہت بڑا ہے ہماری شہزادی بھی یمن کی ملکہ ہے۔ اگر تم چاہو تو میرے ساتھ چلو، میں تمہیں اپنے ملک کی سیر کراؤں
ہُد ہُد سلیمانی نے تیزی سے کہا۔ نہیں نہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں نماز کا وقت نہ گزر جائے ۔ کیونکہ وضو کے وقت حضرت سلیمان علیہ السلام مجھے یاد کریں گے اور اگر اس وقت میں ان کے پاس موجود نہ ہوا تو وہ مجھ پر خفا ہوں گے۔”
بلقیس کےہُد ہُد نے کہا۔ “اگر تم میرے ملک کا کوئی تحفہ ان کی خدمت میں لے جاؤ گے تو مجھے یقین ہے کہ وہ ناراض نہیں ہوں گے۔
اس وجہ کو معقول سمجھ کرہُد ہُد سلیمانی اس کے ساتھ چل پڑا۔ اس نے ملک سبا ( یمن ) کی خوب سیر کی اور نماز عصر
کے وقت دربار سلیمانی میں واپس پہنچ گیا ۔
حضرت سُلیمانؑ نے اسے دیکھ کر قدرے غصے سے پوچھا۔ اےہُد ہُد تو کہاں غائب ہو گیا تھا ؟“
ہُد ہُد نے سر جھکا کر التجا کی۔ حضرت ! بے شک میں قصور وار ہوں۔ لیکن اپنے قصور کی آپ سے معافی چاہتا ہوں ۔ حضرت سُلیمانؑ نے اسے معاف کرتے ہوئے دیر سے آنے کا سبب پوچھا۔
ہُد ہُد کہنے لگا۔ “حضور! میں ایک ایسی بات معلوم کر کے آیا ہوں جس کا اب تک حضور کو شاید علم نہ ہو۔ میں ملک سبا کی ایک خاص خبر لایا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ملک سبا پر ایک عورت حکمرانی کر رہی ہے جسے ملکہ بلقیس کہتے ہیں۔
وہ تیس گز لمبے چوڑے اور جواہرات سے مرصع تخت پر بیٹھتی ہے جو سرخ رنگ کا ہے۔ اس تخت احمر کے پائے یا قوت اور زبرجد سے بنے ہوئے ہیں۔
اگر چہ اللّٰہ تعالیٰ نے وہاں کے لوگوں کو زندگی کی ہر آسائش اور نعمت سے مالا مال کیا ہے لیکن وہ اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیت کے منکر ہیں۔
ملکہ بلقیس اور اس کی رعایا اللّٰہ تعالی کی بجائے سورج کی پوجا کرتی ہے۔ شیطان نے ان کے برے اعمال کو ان کی نگاہوں میں اچھائی کا لباس پہنا دیا ہے اور پوری قوم گمراہی کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی ہے۔
ملک سبا اور ملکہ بلقیس کا حال سن کر حضرت سُلیمانؑ نے ہُد ہُد سے کہا۔ ” ہم ابھی تمہاری سچائی کا امتحان لیتے ہیں۔
حضرت سُلیمانؑ نے ملکہ بلقیس کے نام ایک خط تحریر کر کے ہدہد کے حوالے کیا اور حکم دیا کہ وہ ملکہ کو یہ خط پہنچا آئے۔ خط لے کر ہُد ہُد اڑتا ہوا ملکہ بلقیس کے محل پہنچا۔
ملکہ اس وقت اپنی خوابگاہ میں سورہی تھی۔ ہُد ہُد روشندان کے راستے کمرے میں داخل ہوا اور حضرت سلیمان علیہ السلام کا خط ملکہ کے سینے پر رکھ کر واپس باہر نکل گیا۔
ملکہ کی آنکھ کھلی تو خط دیکھ کر پریشان ہوگئی ۔ پھر خط پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی مہر دیکھ کر اس نے خط کھولا اور پڑھنے لگی۔ خط میں یہ لکھا تھا۔
اپنی طاقت اور قوت پر ہرگز اتنا ناز اور تکبر نہیں کرنا چاہیے بلکہ خداوند و برتر کے حضور جھک جانا چاہیے۔ اس کی رضا کو اپنا نصب العین اور اس کے احکام کی پابندی کو اپنا شیوہ بنانا چاہیے ۔
خط پڑھ کر ملکہ بلقیس نے اپنے درباریوں کو طلب کر کے حضرت سلیمان علیہ السلام کے بارے میں دریافت کیا کہ وہ کون ہیں اور کہاں کے رہنے والے ہیں؟
درباریوں نے بتایا کہ حضرت سُلیمانؑ بہت طاقتور اور جلیل القدر بادشاہ ہیں جو خود لوگوں کو دین حق کی دعوت دیتے ہیں۔ یہ سن کر ملکہ نے چند بڑے ارکان حکومت سے مشور ہ مانگا کہ اس خط کا کیا جواب دیا جائے؟
ہمیں حضرت سلیمان سے خوف نہیں کھانا چاہیے ۔ ہمارے پاس بے حساب جنگی ساز و سامان ہے۔ اگر انہوں نے ہمارے ملک پر حملہ کیا تو ہم ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ اس کے باوجود آپ جو بھی مناسب سمجھیں فیصلہ کریں، ہم اس کی تعمیل کریں گے۔
ملکہ بلقیس نے درباریوں کی تجویز سن کر کہا۔ ” بے شک ہم طاقت ور ہیں لیکن کسی معاملے کا حل یہ نہیں کہ فوراً جنگ کے لیے تیار ہو جا ئیں۔
بہتر یہ ہے کہ چند قاصدوں کو بیش قیمت تحالف دے کر حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں بھیجا جائے۔ اس بہانے قاصدان کی شوکت و عظمت کا بھی بخوبی اندازہ لگا آئیں گے اور یہ بھی پتا چل جائے گا کہ وہ ہم سے کیا چاہتے ہیں۔ اگر وہ واقعی ز بر دست قوت و طاقت والے بادشاہ ہوئے تو ان سے جنگ کرنا بے سود ہوگا۔
تمام در باریوں نے ملکہ کی رائے پر اتفاق کا اظہار کیا۔ تب ملکہ نے بیش قیمت تحائف کے ساتھ چند ایلچی دربار سلیمانی میں روانہ کیے۔
ایلچی جب دربار میں پہنچے اور انہوں نے حضرت سُلیمانؑ کی خدمت میں تحائف پیش کیے تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے تحائف دیکھ کر ایلچیوں سے فرمایا۔
” تم جن قیمتی اشیاء سے مجھے بہلانے آئے ہو ان سے زیادہ قیمتی اشیاء میرے اللّٰہ نے مجھے عطا کر رکھی ہیں۔ میرے نزد یک تمہارے ان تحائف کی کوئی حیثیت واہمیت نہیں ہے ۔ ملک و حکومت اور مال و دولت میرا نصب العین نہیں ہے ۔ میں تو کلمہ حق بلند کرنا چاہتا ہوں ۔ میری خواہش ہے کہ تمام لوگ احکامات الہیٰ کے پابند ہو جائیں۔
تم یہ تحالف وآپس لے جاؤ اور اپنی ملکہ سے جا کر کہو کہ اگر اس نے میرے نصب مین رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کی تو میں ایک عظیم الشان لشکر کے ہمراہ آکر اس کے محل کی اینٹ سے اینٹ بجادوں گا۔
ایلچیوں نے واپس جا کر ملکہ بلقیس کو حضرت سلیمان علیہ السلام کے جواب سے مطلع کیا اور ان کی شان و شوکت کا نقشہ بیان کیا ۔ تب ملکہ بلقیس فکر مند ہوگئی اور ایک بڑے وفد کو لے کر حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف روانہ ہوئی ۔
حضرت سُلیمانؑ کو ملکہ بلقیس کی آمد کا علم ہوا تو انہوں نے درباریوں سے پوچھا۔ “تم میں سے کوئی ایسا شخص ہے جو ملکہ بلقیس کے تحت کو اس کے یہاں پہنچنے سے پہلے لے آئے ؟
حضور دربار کا وقت ختم ہونے تک میں بلقیس کا تخت یہاں لا سکتا ہوں ۔ ایک جن نے ادب سے کہا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا نہیں ۔ یہ تو بہت وقت ہے۔ میں اس سے بہت پہلے یہاں ملکہ کا تخت دیکھنا چاہتا ہوں۔“
تمام درباری خاموش رہے ۔ آخر وز یر اعظم برخیا نے کہا۔ ” حضور ! اگر اجازت ہو تو میں چشم زدن میں یعنی آ نکھ جھپکنے سے پہلے ملکہ کا تخت لا سکتا ہوں۔ آپ نے وزیر اعظم برخیا کو اجازت دی اور وہ پلک جھپکنے کی دیر میں ملکہ بلقیس کا تخت وہاں لے آیا۔
آپ نے ملکہ کا خیر مقدم کیا اور اس کے آرام و آسائش کا سامان مہیا کیا۔ ملکہ بلقیس حضرت سُلیمانؑ کے حسن اخلاق سے بے حد متاثر ہوئی اور آپ پر ایمان لے آئی۔ پھر آپ سے اجازت لے کر واپس اپنے ملک چلی گئی۔
ادھورا بیٹا
اللّٰہ تعالیٰ جب کسی کو پیغمبری اور بادشاہی عطا فرماتا ہے تو اسے آزمائشوں میں بھی ڈالتا ہے۔ حضرت سُلیمانؑ کو بھی اللّٰہ تعالی نے مختلف آزمائشوں میں ڈالا جن میں آپ کامیاب رہے۔ آپ کی ایک ہزار بیویاں تھیں لیکن صرف ایک بیوی سے ایک بیٹا پیدا ہوا۔
اللّٰہ کی قدرت سے اس لڑکے کا صرف ایک کان، ایک آنکھ اور ایک ہاتھ تھا۔ اس کا ہر عضو بدن نصف معلوم ہوتا تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے بڑے دکھ کے ساتھ اللّٰہ تعالی سے اس کی صحت اور تکمیلِ بدن کی دُعا کی۔
ان کی دُعا منظور ہوئی اور لڑکے کے تمام اعضا مکمل ہو گئے ۔ اب اس کا جسم عام انسانوں کی طرح مکمل تھا۔
حضرت سُلیمانؑ کو اپنے بیٹے سے انتہائی محبت تھی۔ ایک دن آپ نے ارادہ کیا کہ تعلیم وتربیت کے اسے کسی اچھے استاد کے حوالے کر دیا جائے۔جنات کو آپ کے ارادے کا علم ہوا تو ایک جن نے آپ سے کہا۔
حضور والا لڑکا میرے حوالے کر دیں، میں اسے اچھی طرح پڑھاؤں گا۔ آپ نے اپنے بیٹے کو اس جن کے حوالے کر دیا۔ لیکن اللّٰہ تعالیٰ کو ان کا یہ فیصلہ پسند نہ آیا اور ملک الموت کو حکم ہوا کہ لڑکے کی روح قبض کرنے کا، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
حضرت سُلیمانؑ کو بیٹے کے مرنے کا بہت دکھ ہوا۔ لیکن اسے اللّٰہ کی رضا مان کر
آپ نے صبر کیا۔
مسجدِ اقصیٰ
مسجد اقصیٰ کی تعمیر حضرت سُلیمانؑ کے والد حضرت داؤد علیہ السلام کے دور حکومت میں شروع ہوئی۔ حضرت داؤد علیہ السلام چاہتے تھے کہ اس مرکز پر ایک ایسی عالی شان عبادت گاہ تعمیر کی جائے جو مسلمانوں کے لیے مقدس ترین اہمیت کی حامل ہو لیکن حضرت داؤد علیہ السلام اپنی اس خواہش کو اپنے ہاتھوں پورا نہ کرسکے اور بیت المقدس کی دیواریں قد آدم تک بلند کر کے چھوڑ دی تھیں۔
چنانچہ مسجدِ اقصیٰ کی تعمیر حضرت سُلیمانؑ کے دور میں ہی مکمل ہوئی ۔ آپ نے اپنی تخت نشینی کے اڑھائی سال بعد یروشلم میں اس مقدس عمارت کی تعمیر شروع کی جو مسلمانوں کا قبلہ اوّل تھی۔
حضرت سُلیمانؑ نے انسانوں اور جنوں کو عمارت جلد سے جلد بنانے کا حکم دیا۔ چنانچہ ایک لاکھ سنگ تراش اس کی تعمیر میں لگے۔
ہزاروں افراد پہاڑوں سے پتھر تراشتے، ستر ہزار ہا تھی اور اونٹ ان پتھروں کو اٹھا کر لاتے تھے۔ جبکہ دیو اور جنات کانوں
سے لعل ، یاقوت، فیروزہ ، زبرجد، سونا اور چاندی وغیرہ لاتے ۔
اس مسجد کی لمبائی 784 گز اور چوڑائی 455 گز تھی۔ مسجد میں 684 ستون تھے اور چار ہزار قندیلیں روشن ہوا کرتی تھیں اس کی صفائی پر سات سو صفائی کرنے والے مامور تھے۔ ۔
مسجد کے صحن میں ایک ہشت پہلو مقام قبتہ الصخرہ کے نام سے ہے جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم ظاہر ہیں ۔
اس مسجد کی تمام زمین میں ایک ہاتھ بھی ایسی جگہ نہیں ہے جس پر کسی پیغمبر نے نماز نہ پڑھی ہو یا کسی فرشتے نے قیام نہ کیا ہو۔
جب حضرت سُلیمانؑ کی وفات کا وقت قریب آیا تو مسجد کی تعمیر مکمل نہیں ہوئی تھی۔ چنانچہ حضرت سُلیمانؑ نے اللّٰہ تعالی کے حضور عرض کیا
یا باری تعالی ! اس وقت بیت المقدس کی تعمیر مکمل نہیں ہوئی ۔ میرے انتقال کو جنات سے پوشیدہ رکھا جائے تا کہ بیت المقدس کی تعمیر مکمل ہو سکے ۔
آپ کی دعا قبول ہوئی ۔ جنات نے شیشے کے محل میں حضرت سلیمان کے لیے ایک معبد تیار کیا تھا اور آپ اکثر یہیں پر عبادت الہٰی میں مصروف رہتے۔ آپ اس میں تشریف لے گئے اور اپنے عصا کے سہارے کھڑے ہو گئے ۔ اسی دوران ان کے جسم سے روح پرواز کرگئی۔
مگر چونکہ حضرت سُلیمانؑ کا بہت رعب و دبدبہ تھا اور اکثر عبادت الہٰی میں مصروف رہتے تھے اس لیے جنات کو آپ کے انتقال کی خبر نہ ہو سکی اور وہ آپ کو زندہ سمجھ کر کام کرتے رہے۔
ایک عرصہ تک ان کا جسم عصا کے سہارے کھڑا رہا۔ آخر جب دیمک نے عصا کو کھا لیا تو عصا ٹوٹ گیا اور آپ کا جسم زمین پر گر پڑا۔ اس وقت جنات کو معلوم ہوا کہ آپ کا تو انتقال ہو چکا ہے۔ چنانچہ وہ پہاڑوں کی طرف بھاگ گئے ۔
حکم الہیٰ سے ہوا تخت سلیمانی کو اڑا کر لے گئی۔ لیکن اس وقت تک بیت المقدس کی تعمیر مکمل ہو چکی تھی ۔ چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو بیت المقدس میں ہی دفن کیا گیا ہے۔
عدل سلیمانی
حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے کا واقعہ ہے۔ دوعورتیں کہیں جارہی تھیں۔ ان کے ساتھ ان کا ایک بیٹا بھی تھا۔ راستے میں اچانک بھیڑیے نے ان پر حملہ کیا اور ایک کا بیٹا چھین کر لے گیا۔ دونوں عورتیں دوسرے بیٹے کے بارے میں جھگڑا کرنے لگیں جو بچ گیا تھا۔ بڑی عورت نےچھوٹی عورت سے کہا۔
بھیٹریا تیرا بیٹا لے گیا ہے۔ نہیں ۔ بھیڑیا تیرا بیٹا لے گیا ہے۔“ چھوٹی نے کہا۔ پھر وہ دونوں اپنا فیصلہ کرانے حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس آئیں تو آپ نے بڑی کے حق میں فیصلہ کر دیا
پھر وہ عورتیں حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس سے گزریں ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا۔ میرے پاس چھری لاؤ۔ میں اس ( زندہ لڑکے ) کے دو ٹکڑے کر کے ایک ایک ٹکڑا دونوں کو دے دیتا ہوں ۔
یہ سن کر چھوٹی عورت نے کہا۔ اللّٰہ تم پر رحم فرمائے ۔ یہ اس (بڑی) کا بیٹا ہے۔ حضرت سُلیمانؑ نے یہ سن کر چھوٹی عورت کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ ( بخاری )
چھوٹی عورت نے لڑکے کے ٹکڑے کرنا گوارا نہ کیا۔ کیونکہ وہ اس کا لڑکا تھا اور سگی ماں ہی اپنے بیٹے کی تکلیف برداشت نہیں کر سکتی تھی ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سُلیمانؑ کی تعریف کی کہ اللّٰہ نے اسے فیصلے کا الہام کیا تھا۔
اسی زمانے میں ایک قوم کی بھیڑیں دوسری قوم کی انگوروں کی بیلیں کھا گئیں۔ بھیڑوں اور انگوروں کے مالک فیصلہ کرانے کے لیے حضرت داودؑ کے پاس آئے۔
آپ نے فیصلہ دیا کہ انگوروں کے مالک کو اس کے انگوروں کی قیمت ادا کر دی جائے ۔ وہ دونوں حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاں سے نکل کر حضرت سُلیمانؑ کے پاس سے گزرے تو انہوں نے دونوں سے پوچھا کہ اللّٰہ کے نبی نے کیا فیصلہ کیا ہے؟ ان دونوں نے بتایا کہ یوں فیصلہ کیا ہے۔
حضرت سُلیمانؑ نے فرمایا کہ اگر تمہارا معاملہ میرے پاس آتا تو میں فیصلہ کرتا کہ بھیڑیں انگوروں کے مالک کے سپرد کر دی جائیں، وہ بھیٹروں کے دودھ اور پیدا ہونے والے بچوں سے فائدہ اُٹھائیں حتیٰ کہ بھیٹروں کے مالک ان کی بیلوں کی دیکھ بھال کریں اور پہلی حالت تک بیلیں تیار کر کے ان کے حوالے کریں۔ پھر اپنی بھیڑیں واپس لے لیں۔
حضرت داودؑ کو حضرت سُلیمانؑ کی اس بات کی اطلاع ملی تو انہوں نے اس کے مطابق فیصلہ کیا اور پہلا فیصلہ ختم کر دیا۔
عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ نے بیان کیا ہے کہ محمدﷺ نے فرمایا ۔
جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے بیت المقدس کی تعمیر مکمل کی تو انہوں نے اپنے رب سے تین چیزوں کا سوال کیا۔ اللّٰہ نے انہیں دو چیزوں دے دیں اور تیسری کے بارے میں ہمیں امید ہے کہ وہ ہمارے لیے ہو گی ۔
سلیمان علیہ السلام نے ایک سوال یہ کیا تھا کہ میرا فیصلہ اللّٰہ کے فیصلے کے مطابق ہو۔ اللّٰہ نے انہیں یہ عنایت کر دیا۔
دوسرا سوال کیا کہ مجھے ایسی حکومت دے جو میرے بعد کسی کے لائق نہ ہو۔ اللّٰہ نے یہ دُعا تبھی قبول فرمائی۔
تیسرا سوال انہوں نے یہ کیا کہ کوئی اپنے گھر سے صرف اس مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے نکلے تو وہ اپنے گنا ہوں سے اس دن کی طرح پاک صاف ہو جائے جس دن اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا۔ ہمیں امید ہے کہ یہ چیز اللّٰہ نے ہمیں عطا کی ہے۔
انگوروں کی بیلیں اور بھیڑوں کے چرنے کے واقعہ میں اللّٰہ تعالی کے فیصلے کے مطابق فیصلے کے متعلق اللّٰہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام اور ان کے باپ داؤد علیہ السلام کی تعریف کی ہے۔ سورۃ الانبیاء میں اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا۔
ترجمه: “اور داؤد اور سلیمان ( کو یاد کرو) جب وہ کھیتی کے متعلق فیصلہ کر رہے تھے جب قوم کی بکریاں اس میں چر گئیں اور ہم ان کے فیصلے کے وقت حاضر تھے۔ پس ہم نے وہ سلیمان (علیہ السلام ) کو سمجھا دیا اور ہر ایک کو داؤد اور سلیمان ) ہم نے حکمت اور علم سے نوازا ۔ (سورۃ الانبیاء – آیت 78-79)
حضرت سُلیمانؑ کی وفات
حضرت سُلیمانؑ کی وفات کے بارے میں حضرت عبدالرحمن بن زید بن اسلمؓ بیان کرتے ہیں کہ سُلیمانؑ نے موت کے فرشتے سے کہا کہ جب تجھے میرے بارے میں فوت کرنے کا حکم ہو تو مجھے اطلاع کرنا۔ وہ ایک دن آپ کے پاس آیا اور کہا۔
اے سلیمان علیہ السلام ! مجھے آپ کے متعلق حکم مل چکا ہے اور آپ کی تھوڑی سی زندگی باقی ہے۔ آپ نے شیاطین کو بلایا جنہوں نے آپ کے لیے شیشے کا ایک محل تعمیر کیا۔ اس کا کوئی دروازہ نہ تھا۔
آپ وہاں کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگ گئے اور اپنی لاٹھی سے ٹیک لگالی۔ پھر ملک الموت اندر آیا اور آپ کی روح قبض کر لی ۔ آپ 52 سال زندہ رہے اور آپ نے چالیس سال حکومت کی ۔ ( ابن جریر)