آج میں آپ کے ساتھ حضرت اویس قرنیؓ کے وصال کا واقعہ شیر کر رہی ہوں۔ دنیا سے تو ہم سب نے ہی چلے جا نا ہے لیکن ایسی مبارک موت اللہ پاک اور اس کے حبیب حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی اطاعت خوشنودی سے ہی نصیب ہوتی ہے۔
ایک عارف رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
ہم عراق سے مکہ مکرمہ اور مصطفی کریم ﷺ کے شہر مدینہ منورہ (زادَهُمَا اللهُ شُرُ فَاوْ تَعْظِيمًا ) کے ارادے سے نکلے ۔
ہمارے قافلے میں بہت سے لوگ تھے ۔ جیسے ہی ہم عراق سے نکلے تو ایک عراقی شخص بھی ہمارے ساتھ چل پڑا۔
اس کا گندمی رنگ کثرت عبادت کی وجہ سے پیلا پڑ چکا تھا۔ اس نے پیوند لگا پرانا لباس پہن رکھا تھا۔
اسکے ہاتھ میں عصا تھا اور ایک تھیلی تھی جس میں تھوڑ اسا تو شہ تھا۔
در اصل وہ عابد وزاہد، امام العاشقین حضرت سیدنا اویس قرنی رضی اللہ عنہ تھے
جب قافلے والوں نے انہیں اس حالت میں دیکھا تو پہچان نہ پائے اور ان سے کہا
” ہمارا گمان ہے کہ تم ایک غلام ہو ۔ “ حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا
” ہاں میں ایک غلام ہوں ۔ لوگوں نے کہا : ”ہمارا گمان ہے کہ تم ایک برے غلام ہو اور اپنے آقا سے بھاگ کر آئے ہو ۔
“ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: ” ہاں ایسا ہی ہے ۔ لوگوں نے کہا کہ
” جب تم اپنے آقا کو چھوڑ کر بھاگے تو اپنے آپ کو کیسا پایا ؟؟؟ اور تمہاری یہ کیا حالت ہے ؟؟
اگر تم اپنے آقا کے پاس رہتے تمہاری یہ حالت ہرگز نہ ہوتی اور بے شک تم بہت برے اور قصور وار غلام ہو ۔
“ تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سے فرمایا: ” بے شک اللہ عزوجل کی قسم
میں ایک گنہگار غلام ہوں ، میرا آقا بہت ہی اچھا ہے اور قصور میرا ہی ہے اگر میں اسکی اطاعت کرتا اور اسکی رضا چاہتا تو میری یہ حالت ہرگز نہ ہوتی ۔
یہ کہہ کر آپ رضی اللہ عنہ رونے لگے اور اتنا روئے کہ قریب تھا کہ آپ رضی اللہ عنہ کی روح پرواز کر جاتی ۔
لوگوں کو ان پر بہت ترس آیا اور انہوں نے آقا سے مراد د نیوی آقا لیا – جبکہ آپ رضی اللہ عنہ نے آقا سے مراد اللہ عز جل کو لیا تھا۔ قافلےوالوں میں سے ایک شخص نے کہا
” ڈرومت میں تمہارے لئے تمہارے آقا سے امان لے لوں گا ، تم اس کی طرف لوٹ جاؤ اور توبہ کرلو ۔
تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: میں اس کی طرف لوٹتا ہوں اور اس کے انعامات میں رغبت رکھتا ہوں۔“
دراصل حضرت سیدنا اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ روضہ انور کی زیارت کیلئے قافلے میں شامل ہوئے تھے۔
بہر حال، اس دن قافلہ چل پڑا اور تیزی سے سفر کرنے لگا۔
رات کو جب اس قافلے نے ایک پتھریلی جگہ پر پڑاؤ کیا، وہ رات انتہائی سرد اور بارش والی تھی۔
وہ بزرگ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ” قافلے والوں میں سے ہر شخص نے اپنے کجاوے اور خیمے میں پناہ لی، جبکہ سیدنا اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس نہ تو کجاوہ تھا، نہ خیمہ اور نہ ہی آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے کسی سے کچھ مانگا ۔
کیونکہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ بات نا پسند تھی کہ آپ دنیوی امور میں سے کوئی چیز مخلوق سے طلب کریں بلکہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ تو اپنی حاجتیں اللہ رب العزت سے مانگا کرتے تھے ۔
اس رات آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو سخت سردی لگی یہاں تک کہ سردی کی وجہ سے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اعضائے مبارکہ کانپنے لگے ۔
جب سردی زیادہ غالب آگئی تو اس عاشق رسول صلی الہ علیہ وآلہ سلم کا سردی لگنے کی وجہ سے انتقال ہو گیا۔
جب قافلے والے بیدار ہوئے اور کوچ کا ارادہ کیا تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو پکارا
اے شخص اٹھو لوگ کوچ کر رہے ہیں ۔
مگر آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے کوئی جواب نہ دیا تو ایک شخص آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے قریب آیا۔
جب اس نے آپ رضی اللہ تعالی کو جھنجوڑا تو دیکھا کہ آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر چکی ہے۔
اس نے قافلے والوں کو پکار کر کہا
“اے قافلے والو! ” اپنے آقا سے بھاگا ہوا غلام انتقال کر گیا ہے اس شخص کو دفن کئے بغیر سفر کرنا مناسب نہیں ۔
قافلے والوں نے کہا
اس کے آقا سے بھاگنے والے معاملے کا کیا ہوگا؟ قافلے میں موجود ایک نیک شخص نے کہا: یہ غلام توبہکر کے اپنے آقا کی طرف لوٹنے کا ارادہ رکھتا تھا اور اپنے عمل پر شرمندہ تھا
اور ہمیں امید ہے کہ اللہ رب العزت اس کے ذریعے ہمیں نفع پہنچائے گا کیونکہ اسکی تو بہ قبول ہو چکی ہے اور اگر ہم اسے دفن کئے بغیر چل پڑے تو کہیں ہم سے اس کے بارے میں سوال نہ کیا جائے ، تمہارے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس کے لئے قبر کھودنے اور اسے اس قبر میں دفن کرنے تک صبر کرو ۔
تو لوگوں نے کہا: یہ ایسی جگہ ہے جہاں پانی موجود نہیں ہے
ایک شخص نے کہا: کسی جاننے والے سے پوچھ لو ۔
چنانچہ لوگوں نے ایک شخص سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ پانی یہاں سے ایک گھنٹے کی مسافت پر ملے گا تم میرے ساتھ کسی آدمی کو بھیج دو میں تمہیں پانی لا دوں گا۔
اس شخص نے ڈول لیا اور پانی کی طرف چل دیا جب وہ قافلے سے نکلا تو اچانک سامنے پانی کی ایک نہر نظر آئی اس نے کہا
بڑا عجیب معاملہ ہے میں نے پہلے کبھی اس نہر کو نہیں دیکھا یہ تو وہ جگہ ہے جہاں پانی ملتاہی نہیں اور نہ ہی کسی قریبی جگہ میں ہوتا ہے۔
بہر حال وہ شخص قافلے کی طرف لوٹ آیا اور قافلے والوں سے کہنے لگا
تمہاری مشقت ٹل گئی لکڑیاں جمع کرو تو انہوں نے پانی گرم کرنے کے لئے لکڑیاں جمع کیں۔
پھر جب پانی لینے کے لئے نہر پر آئے تو پانی کو کھولتا ہوا پایا، جسے دیکھ کے ان کے تعجب میں مزید اضافہ ہوا۔
یہ سب کچھ دیکھ کر شرکائے قافلہ حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ سے گھبرا گئے اور کہنے لگے
” بے شک یہ شخص بڑی عظمت والا ہے۔“
پھر ان لوگوں نے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے لئے قبر کھودنا شروع کی تو مٹی کو مکھن سے زیادہ نرم پایا اور زمین سے خوشبو کی لپٹیں آرہی تھیں ۔ قافلے والوں نے اس سے زیادہ پاکیزہ خوشبو نہ سونگھی تھی ۔ اس صورت حال میں ان کے خوف میں مزید اضافہ ہو گیا اور وہ رعب وگھبراہٹ میں مبتلا ہو گئے۔
جب وہ قبر سے نکلنےوالی مٹی کو دیکھتے تو اسے مٹی کی طرح پاتے اور جب اسے سونگھتے تو مشک کی خوشبو پاتے ۔
پھر ان لوگوں نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے لئے ایک خیمہ نصب کیا اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے جسد اقدس کو اس میں منتقل کر دیا اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے کفن کے معاملے میں بحث کرنے لگے ایک شخص نے کہا کہ انہیں کفن میں دوں گا۔
دوسرے نے کہا : میں دوں گا ۔“ پھر جب ان سب کی رائے اس بات پر متفق ہوئی ہر شخص کفن کے لئے ایک ایک کپڑا دے
پھر ان لوگوں نے کاغذ اور قلم پکڑا اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا حلیہ مبارک اور صفات مبارکہ لکھنے لگے اور کہنے لگے
ان شاء اللہ جب ہم مدینے پہنچیں گے تو شاید وہاں ہمیں ان کا کوئی جاننے والا مل جائے ۔
“ پھر ان لوگوں نے اس پرچے کو اپنے سامان میں رکھ لیا۔
جب انہوں نے حضرت سید نا اویس قرنی رضی اللہ تعالی کو غسل دے دیا اور کفن پہنانے کے لئے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے لباس کو اتارنا چاہا تو آپ کو جنتی کفن میں لپیٹا ہوا پایا۔
دیکھنے والوں نے کبھی ایسا کفن نہ دیکھا تھا۔ اس کفن پر مشک و عنبر لگا ہوا تھا جس کی خوشبو نے فضا کو معطر کر دیا تھا اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی جبین اطہر اور مبارک قدموں پر مشک کی مہر لگی ہوئی تھی
یہ دیکھ کر لوگ کہنے لگے : ” گناہ سے بچنے اور نیکی کرنے کی قوت رب تعالیٰ ہی دیتا ہے کہ رب العزت نے انہیں کفن پہنا دیا اور بندوں کے کفن سے بے نیاز کر دیا، ہم اللہ رب العزت سے امید رکھتے ہیں کہ وہ اپنے اس برگزیدہ اور مقبول شخص کے وسیلہ سے ہمیں جنت عطا فرمائے گا اور ہم پر رحم فرمائے گا۔
پھر ان قافلے والوں کو حضرت سیدنا اویس قرنی رضی اللہ تعالی کو سخت سردی کی رات میں تنہا چھوڑنے پر سخت ندامت و شرمندگی محسوس ہوئی۔
پھر ان لوگوں نے آپ رضی اللہ الی عنہ کو دفن کرنے کے لئے اٹھایا اور نماز جنازہ ادا کرنے کے لئے ایک ہموار جگہ پر لے گئے
جب ان لوگوں نے تکبیر کہی تو آسمان سے زمین تک مشرق سے مغرب تک تکبیرکی آوازیں سنیں تو ان کے کلیجے دہل گئے اور آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
وہ اپنے سروں سے سنی جانے والی آوازوں سے مرعوب ہونے اور گھبراہٹ کی شدت کی وجہ سے یہ نہ سمجھ پائے کہ نماز جنازہ کس طرح ادا کی جائے ۔
پھر جب انہیں قبر کی طرف لے جانے کا ارادہ کیا تو اٹھاتے وقت انہیں یوں محسوس ہوا کہ حضرت سیدنا اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کا جسد اقدس کسی اور مخلوق نے تھام رکھا ہے اور انہیں آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا وزن تک محسوس نہ ہوا ۔
بہر حال آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو دفن کرنے کے لئے قبر کی طرف لائے اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے جسم اقدس کو قبر میں دفن کر دیا۔
اس کے بعد قافلے والے حضرت سید نا اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں حیران و پریشان ہوتے ہوئے سفر پر روانہ ہو گئے۔
جب وہ اپنا سفر پورا کر کے لوٹے تو کوفہ کی مسجد میں آئے اور لوگوں کو آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا واقعہ سنایا اور وہاں ان کا حلیہ بیان کیا تو حلیہ بیان کرنے پر لوگوں نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو پہچان لیا
مسجد میں رونے کی آوازیں بلند ہوئیں اور اگر آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے وصال کے بعد آپ کی کرامات ظاہر نہ ہو تیں تو حضرت سیدنا اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال کی خبر کسی کو نہ ہوتی
اور نہ ہی آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے مزار کا کسی کو پتا چلتا کیونکہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے لوگوں سے پوشیدگی اور کنارہ کشی اختیار کر رکھی تھی ۔
اللہ کی ان پر رحمت ہو اور اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔ آمین یا رب العالمین
If you want to read Urdu Islamic Stories You can read: Urdu Stories