The Holy Birth Of Prophet Hazrat Muhammad ﷺ In Urdu

The Holy Birth Of Prophet Hazrat Muhammad ﷺ In Urdu
Spread the love

Birth Of Prophet Hazrat Muhammad

Most Heart Touching Islamic Story Of

“The Holy Birth  Of Our Beloved Prophet Hazrat Muhammad ﷺ “

Must read and share this beauty of Holy Birth with your friends, family members and specially with your childrens. It’s the need of the time that we must impart to our childern such valuable information  related to our Deen,  Our Nabi ( ) and His Preaching.

اللَّهُمَّ صَل عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَ بَارِكْ وَسَلَّم

 

ہمارے نبی پاک ﷺ کی پیدائش کا واقعہ

اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو جب دنیا  میں بھیجا تو بھیجنے کا انداز بھی سب سے نرالا تھا. جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے اس کی ناف کو آنت سے جدا کیا جاتا ہے ، اس کا ختنہ کیا جاتا ہے اور اس کو نہلایا جاتا ہے

لیکن جب ہمارے نبی پاک ﷺ پیدا ہوئے تو آپ ﷺ کی ناف سے آنت کٹی ہوئی تھی . باہر نہیں کاٹی گئی۔ آپ ﷺ کا ختنہ پہلے سےہوا ہوا تھا۔ باہر نہیں کیا گیا۔ آپ ﷺ اس طرح باہر آئے جس طرح کسی نے دھود ھلا کر پاک کر کہ باہر پہنچا دیا ہو-

جب آپ ﷺ کو رکھا گیا تو ایک دم پانچ منٹ کا بچہ… دس منٹ کا بچہ ، آپ ﷺ نے الٹے ہاتھ پر زور دیا اور پورا سینہ یوں اٹھا لیا، ایک دم ایسے، اور آسمان کی طرف نظر بلند کی اور اپنے سیدھے ہاتھ کی انگلی کو یوں کیا.

یوں کرنا تھا کہ حضرت آمنہ رضی اللّٰہ عنہا پر سارا عالم روشن ہو گیا۔ ایک نور پھیلا، سارا گھر اور یمن تک نظر آیا شام نظر آیا، ایران نظر آیا۔ حمیرہ نظر آیا اور سلطنت رومہ کے محل نظر آئے ۔ یمن اور حیرہ کے محل نظر آئے، صرف اتنا کرنے سے –

بچے کو اپنا بھی نہیں پتہ ہوتا میں کون ہوں؟  کیا ہوں؟  یہ کیا حرکت ہوئی ہے؟  پھر جب آپ ﷺ  پیدا ہوئے تو ساری دنیا کے بت زمین پہ جا گرے۔ بادشاہوں کے تخت الٹے ہو گئے۔

جو بادشاہ اس وقت دربار سجائے بیٹھے تھے اور ان کے سروں پر تاج تھے اچھل کے زمین پر جا گرے۔ آپ ﷺ کی پیدائش پر بت اوندھے منہ گر گئے

  آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہورہے ہیں اور ساری دنیا کے بت زمین پر گر رہے ہیں ، بادشاہوں کے تحت الٹ گئے بت زمین پر جاگرے ۔ ایک سمندر کی مچھلیوں نے دوسرے سمندر کی مچھلیوں کو جا کر مبارکباد دی کہ کائنات کا سردار آ گیا

 تین ہزار ایک سو چونسٹھ برس تک کسری کی حکومت وسلطنت چلی ہے- دنیا کی سب سے قدیم سلطنت  نے اتنی مسلسل حکومت کی  ہے ، یہ پرشین تھے ۔

کسری کی ۱۰۰۰ سالہ قدیم آگ بجھ گئی

 کسری جس کو کہا جاتا ہے ۔ تین ہزار ایک سو چونسٹھ برس حکومت کی اور حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہا نے کے زمانے میں جا کے دم تو ڑا ۔ اس وقت وہ اپنے عروج پر تھی ۔ نوشیرواں کا زمانہ تھا۔ نوشیرواں عادل کے نام سے مشہور ہے ۔

اس کا زمانہ تھا اور اس کے محل میں آ باو اجداد کے زمانے سے تقریباً ایک ہزار سال سے آگ جل رہی تھی ۔ چونکہ آگ کے پجاری تھے ایک دم پوری آگ بجھ گئی اور اس نے ایک سفید پتھر کا محل بنایا تھا۔ اس کے چودہ بڑے بڑے برج دھماکے کے ساتھ زمین پر گر گئے تو ساری کائنات میں ہلچل مچ گئی۔ ایک یتیم کے پیدا ہونے پر۔

آگ کی پرستش

ایک ہزار سال سے کسری یعنی ایران آل آساسان نے پتہ ہے کہ کتنی حکومت کی ؟ دنیا کی سب سے لمبی حکومت ہے ان کی۔

 حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہا  کے زمانے میں جب آخری بادشاہ یزدجر قتل ہوا ، تو اس وقت ان کی حکومت کو تین ہزار ایک سو چونسٹھ سال ہو چکے تھے اتنی لمبی چوڑی حکومت تھی ان کی اور ایک ہزار سال سے وہ آگ کی پوجا کر رہے تھے ۔

ان میں ایک بادشاہ تھا ضحاک  ، ضحاک کے زمانے سے  آگ کی پرستش شروع ہوئی – ضحاک  شکار کو نکلا ہوا تھا-  تو ایک دم اثر دھا اس پر حملہ آور ہوا ، تو اس کو اور تو کچھ نہیں سوجھی، اس نے پتھر اٹھا کر اس کو مارا جو اسے نہیں لگا۔

قریب پتھر پر جا کر پڑا تو اس سے آگ کا شعلہ نکلا اس شعلے نے اثر دھا کو لپیٹ میں لے لیا اور اس کو  آگ لگ گئی ۔ تب سے انہوں نے کہا کہ آگ ہی ہمارے لئے خدا ہے اور اس کی پوجا شروع کروائی ۔ یہاں سے آگ کی پرستش ایران میں داخل ہوئی

اس کو ہزار برس ہو چکے تھے اور ایک پل کے لئے یہ آگ بجھنے نہیں پائی تھی – اس کو جلاتے رہتے تھے ،  جلاتے رہتے تھے ساگوان عود کی لکڑیوں سے ، دار چینی کی لکڑیوں سے ، عجر کی لکڑیوں سے یہ آگ جلائی جاتی تھی – جس سے خوشبو بھی پھیلتی تھی اور آگ بھی جلتی تھی

جونہی آپ ﷺ پیدا ہوئے ، آگ ایک دم بجھ گئی سارا زور لگایا ، جلتی نہیں تھی

نوشیروان کے محل کے کنگرے ٹوٹ گئے

(White Palace) آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تو نوشیروان نے ادھر ایک محل بنایا تھا جس کو اب آپ وائٹ پیلیس کہہ سکتے ہیں۔ اس کا نام قصر ابیض تھا۔

 سارا سنگ مرمر کے پتھروں سے بنا ہوا۔ سنگ مرمر کی ٹائیلیں نہیں ،کہ جس طرح ہم لگا لیتے ہیں . چھوٹی چھوٹی ٹائیلیں، پورے پورے ستون سنگ مرمر کے ، سفید پتھر سارا۔

وہ اتنا مضبوط تھا کہ ابوجعفر نے اپنے زمانے میں کہا کہ اس کو تو ڑ کر اس کا پتھر استعمال کرو تو خالد برمکی اس کا وزیر تھا۔ اس نے کہا کہ اسے نہ توڑیں ، یہ ٹوٹے کا بھی نہیں۔ توڑنے کا خرچہ زیادہ آئے گا اور نیا پتھر لگانے کا خرچہ کم آئے گا۔

تو ابو جعفر منصور جو کہ بخیل شخص تھا اس نے کہا نہیں نہیں بنا بنایا موجود ہے۔ خیر، جب توڑنے لگے تو چند دن میں پتہ لگ گیا کہ یہ تو ٹوٹتا ہی نہیں۔ اس کے توڑنے کا خرچہ زیادہ ہے نئے پتھر کا خرچہ کم ہے

ابو جعفر کہنے لگا کہ نہیں نہیں چھوڑ دوا سے، نیا پتھر لگاؤ۔ تو خالد برکی نے کہا کہ ضرور توڑو- تو ابو جعفر نے کہا: کیوں؟ اور کہا کہ آنے والی نسلیں کیا کہیں گی ؟ کہ یہ لوگوں کے بنے ہوئے گھر ہی نہ توڑ سکے

لہذا اس کو ضرورتوڑو۔ پھر اسے تو ڑا گیا اس کا نشان بھی اب مٹ گیا ۔ کچھ کھنڈر شاید باقی ہوں۔ تو وہ اتنا مضبوط محل تھا جسے توڑنا کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔

-تو جب آپ پیدا ہوئے تو کسری کے محل کے چودہ برج ایک دھماکے کے ساتھ زمین پر جا گرے

جوں ہی آپ ﷺ پیدا ہوئے ایک دم آگ بجھ کر راکھ ہوگئی۔ اب وہ حیران کہ یہ کیا ہوا؟ یہ آگ کیسے بجھ گئی؟ اب یہ لکڑی ڈال رہے ہیں وہ جلتی ہی نہیں تو وہ بھاگا بھاگا آیا نوشیروان کے پاس اور کہا

عالم پناہ! آگ بجھ گئی ہے۔ اتنے میں وہ دربان آئے، عالم پناہ! چودہ برج زمین پر گر گئے ہیں . انہوں نے کہا کہ مر گئے یہ تو کوئی مصیبت آگئی ۔ انہوں نے کہا کہ پتہ کرو کون ہے جو اس کی تعبیر دے۔

آپ کی پیدائش اور غیبی آواز

حضور ﷺ پیدا ہوئے اور حضرت آمنہ نے جب آپ کو گود میں لیا تو حیران ہو کے دیکھ رہی ہیں . یہ بچہ کیا ہے؟ یہ بچہ کیسا ہے؟ ادھر ان کے گھر کی چھت پھٹ گئی اور ایک بادل اندر آ گیا۔

فَغَشِيَتَهُ وَغَيْبَتَهُ
ایک دم بادل پھیلا اور ایک لمحے کے لئے حضرت آمنہ کو محسوس ہوا کہ بچہ گود میں نہیں ہے گود خالی ہے اور اس بادل کے اندر سے آواز آئی

طُوفُوا بِهِ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَ مَغَارِبَهَا
اس بچہ کو مشرق، مغرب پھرا دو۔ شمال جنوب پھرا دو۔

لِيَعْرِفُوا بِاسْمِهِ وَ نَعُتِهِ وَصُورَتِهِ

تا کہ سارا جہان اس کے نام کو، صفات کو ذات کو پہچان لے ۔

شانِ رسالت بزبان عیسائی راہب

وہاں ایک عیسائی عالم رہتے تھے ان کا نام تھا عبد المسیح اس کو بلایا۔ ہیرا یوں سمجھیں کہ عرب اسٹیٹ تھی کہ جو ایران کے تابع تھی تو نوشیروان نے اس ہیرا کے بادشاہ کولکھا

 تیرے پاس کوئی آسمانی کتابوں کو جاننے والا ہے تو میرے پاس بھیجو۔ تو عبد المسیح جو اس وقت کے ایک بڑے عالم تھے ان کو بھیجا گیا۔ ان کو جب سارا قصہ سنایا گیا تو انہوں نے کہا کہ میں بھی اس کا جواب نہیں دے سکتا

میرے ایک ماموں ہیں جو شام میں رہتے ہیں۔ میں ان سے پوچھ کر آتا ہوں تو وہ شام گئے۔ جو ان کے ماموں تھے ان کا نام تھا سطیخ ۔ جب یہ وہاں پہنچے تو وہ مرض الموت تھے ۔انہوں نے اس کو ہلایا: سطیخ سطیخ

امامک عبد المسیح ۔ آپ کے سامنے عبد المسیح آیا ہے ۔

تو اس نے ایسے آنکھیں کھولیں تو انہوں نے نہیں بتایا کہ میں کیوں آیا ہوں، وہ خود بولے۔

بعثک ملک الساسان
تجھے ایرانی بادشاہ نے بھیجا ہے
لا تجارس الايوان
کہ اس کے محل کے کنگرے ٹوٹ گئے
و خمود الینوان
اور اس کی آگ بجھ گئی
کہا : جی ہاں- پھر کہا: اس کو جا کر کہہ دو کہ

” اذا ظاهر اسهاوا وكثرة التلاوة وعادت بحيرة السعاوا… وفازت وادا سلماوا فليس لتسسهم الشام و ليس فارس لعبد المسيح المقام واينما عللك الملكوت وملكات … لعادة اشرفات وكلما هواات ات و انی اری آن زمان محمد اقد القترب

جا کر کہو جب وہ عصا والا نبی ظاہر ہوگا، لاٹھی والا نبی ظاہر ہو گا۔ (آپ کے ہاتھ میں لاٹھی ہوتی تھی ) اور جب اس کے قرآن کی تلاوت ہوگی اور جب بحیرہ سلوا خشک ہوگا – اور ہو جائے گا اور مجھے یوں لگتا ہے کہ وہ آخری نبی دنیا میں پیدا ہو گیا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ سب کچھ وجود میں آیا ہے۔

میرے بھائیو! اتنا بڑا رسول آیا یہ تو تاریخی روایات ہیں۔ احادیث ہیں ۔ ان میں کچھ ضعف اور صحیح بھی ہیں کچھ، لیکن اگر ہم صرف قرآن پاک میں چلے جائیں اور ساری باتیں چھوڑ دیں ۔ قرآن میں اللہ اپنے نبی ﷺ کو کیا مقام دیتا ہے اور کتنی اونچی جگہ پر رکھتا ہے۔

تمام انبیاء علیہ السلام  کی صفات کا مر کز کون؟

واتوه خلق ادم

اسے اخلاق آدم علیہ السلام دیئے جائیں

ومعرفة شيث

شیث علیہ السلام کی معرفت دی جائے

وشجاعة نوح

نوح  علیہ السلام کی شجاعت دی جائے

و خلة ابراهيم

ابراہیم علیہ السلام کی دوستی دی جائے

و استسلام اسمعيل
اسماعیل علیہ السلام کی قربانی دی جائے

وفصاحة صالح

 صالح علیہ السلام کی فصاحت دی جائے

وحكمة لوط

 لوط علیہ السلام کی حکمت و دانائی دی جائے

ورضا اسحاق

 اسحاق علیہ السلام کی رضا دی جائے

و بشرى یعقوب

 یعقوب علیہ السلام کی بشارت دی جائے

و جمال يوسف

 یوسف علیہ السلام کی خوبصورتی دی جائے ۔

شدت موسیٰ

 موسیٰ علیہ السلام کی شدت دی جائے۔

جهاد يوشع

 یوشع الامین علیہ السلام کا جہاد دیا جائے

و حب دانیال

 دانیال علیہ السلام کی محبت دی جائے۔

و وقار الياس

 الیاس علیہ السلام کا وقار دیا جائے۔

ولحن داؤد

 داؤد علیہ السلام کی شیرینی دی جائے۔

و قلب ايوب

 ایوب علیہ السلام جیسا دل دیا جائے۔

و طاعة يونس

 یونس علیہ السلام کی اطاعت دی جائے

و عصمة يحيى

 یحییٰ علیہ السلام کی پاک دامنی دی جائے۔

و زهد عیسی

 عیسیٰ علیہ السلام کا زہد دیا جائے۔

وَاغْمِصُوهُ فِي اخْلاقِ النَّبِيِّينَ”

اور” تمام انبیاء کے اخلاق میں اس بچے کو لوٹا دیا جائے “۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے وقت آسمان سے فرشتے اتر آئے، آپ ﷺ کے استقبال میں ستارے نیچے جھکا دیئے گئے- فرمایا: مجھے یوں لگتا تھا کہ  ستارے مجھ پر گر جائیں گے ملائکہ تھے جو اتر آئے تھے۔ میرے محبوب ﷺ کی آمد پر ہر مخلوق خوش تھی

اللہ تعالیٰ نے ربیع الاول سے اگلے ربیع الاول تک پوری دنیا میں ہر عورت کو بیٹا بیٹی کسی کو نہیں دی
اپنے نبی ﷺ کے اعزاز میں ایک سمندر کیمچھلیوں نے دوسرے سمندر کی مچھلیوں کو جا کر مبارکباد دی . دیکھنے میں یتیم پیدا ہورہا ہے ۔ عالم میں تبدیلی اس طرح آ رہی ہے۔ بت گر رہے ہیں، آگ بجھ رہی ہے

حضرت عباس رضی اللّٰہ عنہا کا انوکھا خواب

 حضور پرنور ﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اللّٰہ عنہا فرماتے ہیں کہ  میرے بھائی حضرت عبداللہ رضی اللّٰہ عنہا جب پیدا ہوئے

كَانَ وَجْهِهِ نُورٌ يَظْهَرُ كَنُورِ الشَّمْسِ “ ان کے چہرے مبارک پر ایسا نور چمک رہا تھا جیسا سورج کا نور چمکتا ہے۔

حضرت عبدالمطلب رضی اللّٰہ عنہا نے اپنے صاحبزادہ حضرت عبداللّٰہ رضی اللّٰہ عنہا کو دیکھ کر فرمایا کہ

” اس بچہ کی نرالی شان ہوگی”

حضرت عباس رضی اللّٰہ عنہا فرماتے ہیں

کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت عبداللہ رضی اللّٰہ عنہا کی ناک مبارک سے ایک سفید پرندہ نکلا اور اس نے مشرق و مغرب میں پرواز کی۔ پرواز کرنے کے بعد وہ بیت اللہ شریف آکر بیٹھ گیا۔ سب قریش نے اس پرندہ کو سجدہ کیا۔

پھر وہ زمین و آسمان کے درمیان اڑا۔ اس خواب کو میں نے ایک کا ہنہ کے سامنے بیان کیا تو اس نے کہا۔

لَئِنُ صَدَقَتْ رُؤْيَاكَ لَيَخْرُ جَنَّ مِنْ صُلْبِهِ وَلَدٌ يَسِيرُ اهل المشرق والمغرب له تبعا

اگر تیرا یہ خواب سچا ہے تو ( حضرت عبد اللہ ) کی پشت اقدس پر ایسا فرزند ارجمند ظاہر ہوگا کہ تمام مشرق و مغرب والے اس کے تابع ہو جائیں گے

 ( خصائص کبری للسیوطی ۱۲۱۷۱، حجت اله علی العالمین ص (۲۰۱)

بادل کا حضور ﷺ پر سایہ اور ابوطالب کی حیرانی

بچپن میں حضور ﷺ اپنے چچا حضرت ابوطالب  کی معیت میں شام کے سفر پر روانہ ہوئے ۔ راستہ میں راہبوں کی خانقاہ کے پاس سے گزر ہوا- وہاں ایک بڑا راہب رہتا تھا۔ اس کا نام بحیرہ تھا وہ کسی کی ملاقات کے لئے اپنی خانقاہ سے باہر نہ نکلتا تھا

لیکن جب اہل مکہ کا یہ قافلہ جس میں سرکار دو عالم ﷺ بھی تھے ۔ اس نے اس خانقاہ کے پڑوس میں قیام کیا تو وہ خود ہی باہر آیا۔ قافلے والوں کو بڑے غور سے دیکھتا رہا۔ پھر اس نے رسول کریم ﷺ کا ہاتھ پکڑا اور سب کو کہا

 

” هَذَا سَيْدُ الْعَالَمِينَ يَبْعَثَهُ اللَّهُ رَحْمَةُ المُعَالِمِينَ “
یہ سارے جہانوں کے سردار انہیں اللہ تعالی رحمت للعالمین بنا کر مبعوث فرمائے گا”

 

کسی نے اس راہب سے پوچھا: اور بھی بہت سے خاندان قریش کے لوگ ہیں تم نے انہیں کیسے پہچانا ؟
اس نے جواب دیا

جب بھی آپ کا گزر درخت یا پتھر کے پاس سے ہوتا وہ ان کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتے نبی کے بغیر شجر و حجر کسی کو سجدہ نہیں کرتے۔

 

دوسری نشانی یہ دیکھی کہ جب ان کا قافلہ آرہاتھا تو بادل کا ایک ٹکڑا ان پر سایہ کئے ہوئے تھا۔ آپ جدھر جاتے بادل کا ٹکڑا آپ ﷺ کے ساتھ ساتھ جاتا

تیسری یہ نشانی دیکھی کہ قافلہ والوں نے آگے بڑھ کر درخت کے سایہ میں اپنی اپنی جگہ پر قبضہ کر لیا. جب حضرت محمد ﷺ  تشریف لائے تو درخت کے سایہ میں جگہ نہ تھی آپ ﷺ جہاں بیٹھے درخت کا سایہ ادھر جھک گیا

 علامہ شہاب خفاجی شارح شفاء لکھتے ہیں کہ

حضور ﷺ اگر سنگ خارا پر قدم مبارک رکھتے تو اس کا نشان اس پتھر میں ظاہر ہو جاتاتھا لوگ ان پتھروں سے تبرک حاصل کرتے ان کی زیارت کے لئے جاتے  اور ان کا احترام کرتے ہیں

 ایک پتھر مصر میں بھی تھا۔ سلطان قاتیبائی نے ہزار پونڈ میں اسے خریدا اور وصیت کی کہ یہ پتھر اس کی قبر کے نزدیک رکھا جائے اور وہ اب تک موجودے

.رسالت مآب ﷺ سنگ خارا پر قدم رکھتے تو اس میں حضور ﷺ کے پاؤں کے نقش ثبت ہو جاتے- ریت پر قدم رکھتے تو کچھ پتہ نہ چلتا

سبحان اللہ العظیم

حوالہ عال من نینی مصنف اسیر و نبویہ ۳ ۳۷ اور لائل الفورة )

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *